صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
32. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی، (وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے“۔
وَيُذْكَرُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَحْشُرُ اللَّهُ الْعِبَادَ فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ أَنَا الْمَلِكُ، أَنَا الدَّيَّانُ» .
اور جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔
حدیث نمبر: 7481
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ"، قَالَ عَلِيٌّ وَقَالَ غَيْرُهُ: صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟، قَالُوا: الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کے آگے عاجزی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے بازو مارتے ہیں (اور ان سے ایسی آواز نکلتی ہے) جیسے پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا سفیان کے سوا دوسرے راویوں نے اس حدیث میں بجائے «صفوان» کے بہ فتحہ «فاصفوان» روایت کیا ہے اور ابوسفیان نے «صفوان» پر سکون فاء روایت کیا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی چکنا صاف پتھر۔ اور ابن عامر نے «فزع» بہ صیغہ معروف پڑھا ہے۔ بعضوں نے «فزع» رائے مہملہ سے پڑھا ہے یعنی جب ان کے دلوں کو فراغت حاصل ہو جاتی ہے۔ مطلب وہی ہے کہ ڈر جاتا رہا ہے پھر وہ حکم فرشتوں میں آتا ہے اور جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کے کیا کہا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق، اللہ وہ بلند و عظیم ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث194  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کی تابعداری میں بطور عاجزی اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، جس کی آواز کی کیفیت چکنے پتھر پر زنجیر مارنے کی سی ہوتی ہے، پس جب ان کے دلوں سے خوف دور کر دیا جاتا ہے تو وہ باہم ایک دوسرے سے کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے حق فرمایا، اور وہ بلند ذات والا اور بڑائی والا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چوری سے باتیں سننے والے (شیاطین) جو اوپر تلے رہتے ہیں اس کو سنتے ہیں، اوپر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 194]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ تعالیٰ کا کلام آواز و الفاظ سے ہوتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں۔

(2)
فرشتے اللہ کی عظمت و کبرائی کا شعور رکھتے ہیں، اس لیے وہ اللہ کا کلام سن کر فروتنی کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکام سن کر زیادہ لرزاں و ترساں رہنا چاہیے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے زیادہ مرتبہ ومقام عطا کیا ہے۔

(3)
اوپر والے جِن نیچے والوں جنوں کو وہ بات بتاتے ہیں جو انہوں نے اپنے اوپر موجود فرشتوں سے سنی ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام اوپر سے نازل ہوتا ہے۔
اس سے اللہ تعالٰی کا علو اور اوپر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی کا اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا تصور درست نہیں، البتہ اپنے علم کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے، یعنی ہر چیز سے وہ باخبر ہے۔

(4)
جنوں کو بھگانے کے لیے شعلے مارے جاتے ہیں، یہ شعلے جنوں کو تباہ بھی کر سکتے ہیں۔

(5)
کاہنوں اور نجومیوں کا تعلق شیاطین سے ہوتا ہے اس لیے علم نجوم، جوتش وغیرہ سب شیطانی علوم ہیں۔
مسلمانوں کو ان پر یقین نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ایسی چیزوں کے مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(6)
کاہنوں اور نجومیوں کی باتیں اکثر غلط اور جھوٹ ہوتی ہیں، کبھی کوئی بات صحیح نکل آتی ہے اور وہ بھی وہ بات ہے جو کسی شیطان نے کسی فرشتے سے سن کر نجومی کو بتا دی ہوتی ہے، اس لیے ان پر اعتماد کرنا درست نہیں، بلکہ سخت گناہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کسی نجومی (یا رَمَّال)
کے پاس گیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (صحيح مسلم، السلام، باب تحريم الكهانة واتيان الكهان، حديث: 2230)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3223  
´سورۃ سبا سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ آسمان پر کسی معاملے کا حکم و فیصلہ صادر فرماتا ہے تو فرشتے عجز و انکساری کے ساتھ (حکم برداری کے جذبہ سے) اپنے پر ہلاتے ہیں۔ ان کے پر ہلانے سے پھڑپھڑانے کی ایسی آواز پیدا ہوتی ہے تو ان زنجیر پتھر پر گھسٹ رہی ہے، پھر جب ان کے دلوں کی گھبراہٹ جاتی رہتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: حق بات کہی ہے۔ وہی بلند و بالا ہے، آپ نے فرمایا: شیاطین (زمین سے آسمان تک) یکے بعد دیگرے (اللہ کے احکام اور فیصلوں کو اچک کر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3223]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَلاَ تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ (سبأ: 23) کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3223   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3989  
´باب:۔۔۔`
اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حدیث ۱؎ روایت کی اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے قول «حتى إذا فزع عن قلوبهم» یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے (سورۃ سبا: ۲۳) ۲؎ سے یہی مراد ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3989]
فوائد ومسائل:
لفظ (فزع) ف کے ضمہ زا مشدد کے کسرہ کےساتھ ہے۔
جبکہ ایک قراءت میں مروی ہے۔
(یعنی ر غیر منقوط اور غ منقوط کےساتھ۔
)
ابن عامر اور یعقوب کی قراءت میں (زمنقوط کےساتھ) (عربی میں لکھا ہے) بصیغہ ماضی آیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3989   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7481  
7481. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فیصلے کے آگے اظہار عاجزی کرنے کے لیے اپنے پر مارتے ہیں، گویا ان کے پروں کی ایسی آواز ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔۔۔۔۔۔ شیخ بخاری علی بن مدینی نے کہا: سفیان کے علاوہ دوسرے رایوں نے ٖصفوان کو فا کو ساکن پڑھا ہے۔)۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ یہ حکم فرشتوں کو پہنچاتا ہے، ان کے دلوں سے جب خوف دور کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو وہ کہتے ہیں: حق فرمایا ہےاور وہ (اللہ) بہت بلند بہت بڑا ہے۔ علی بن مدینی نے کہا: ہم سے سفیان نے ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی۔ اور کبھی سفیان نے یوں بیان کیا کہ عمرو نےکہا: میں نے عکرمہ سے سنا، (انہوں نےکہا:) ہم سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7481]
حدیث حاشیہ:
ان سندوں کوبیان کر کے حضرت امام بخاری  نےیہ ثابت کیا کہ اوپر کی روایت جوعن کےساتھ ہے وہ متصل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7481   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7481  
7481. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فیصلے کے آگے اظہار عاجزی کرنے کے لیے اپنے پر مارتے ہیں، گویا ان کے پروں کی ایسی آواز ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔۔۔۔۔۔ شیخ بخاری علی بن مدینی نے کہا: سفیان کے علاوہ دوسرے رایوں نے ٖصفوان کو فا کو ساکن پڑھا ہے۔)۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ یہ حکم فرشتوں کو پہنچاتا ہے، ان کے دلوں سے جب خوف دور کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو وہ کہتے ہیں: حق فرمایا ہےاور وہ (اللہ) بہت بلند بہت بڑا ہے۔ علی بن مدینی نے کہا: ہم سے سفیان نے ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی۔ اور کبھی سفیان نے یوں بیان کیا کہ عمرو نےکہا: میں نے عکرمہ سے سنا، (انہوں نےکہا:) ہم سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7481]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے مراد کسی چیز کے متعلق فرشتوں کو حکم دینا ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت نواس بن سعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی گزشتہ احادیث میں وضاحت ہے۔
اور فرشتوں کا اظہار عاجزی کے پیش نظر اپنے پَروں کا مارنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اورحکم کو سنتے ہیں، نیز حروف وآواز پر مشتمل کلام ہی کو سنا جا سکتا ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس امر کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی حروف وآواز پر مشتمل ہے اور وہ سنا جا سکتا ہے لیکن وہ مخلوق کے کلام سے مشابہت نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ بھی حقیقی کلام کا اظہار کرتا ہے جسے فرشتے سنتے ہیں اور اظہار عاجزی کے لیے اپنے پَر مارتے ہیں جن سے ایسی آواز نکلتی ہے جیسا کہ سخت چٹان پر لوہے کی زنجیر کھینچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے اختتام پر کچھ اسناد ذکر کی ہیں۔
ان سے انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عکرمہ سے تدلیس کے شبہ کو دور کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ مذکورہ حدیث متصل سند سے مروی ہے اور اس میں تدلیس کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7481   
حدیث نمبر: 7481M
قَالَ عَلِيٌّ، وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ بِهَذَا، قَالَ سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو، سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ عَلِيٌّ: قُلْتُ لِسُفْيَانَ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَة، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: إِنَّ إِنْسَانًا رَوَى عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَرْفَعُهُ أَنَّهُ قَرَأَ فُرِّغَ، قَالَ سُفْيَانُ: هَكَذَا قَرَأَ عَمْرٌو فَلَا أَدْرِي سَمِعَهُ هَكَذَا أَمْ لَا قَالَ سُفْيَانُ: وَهِيَ قِرَاءَتُنَا.
اور علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ان سے عمرو نے بیان کیا، انہوں نے عکرمہ سے سنا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عکرمہ سے سنا، انہوں نے کہا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تو سفیان بن عیینہ نے اس کی تصدیق کی۔ علی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ ایک شخص نے عمر سے روایت کی، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ نے «فزع» پڑھا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح پڑھا تھا، مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اسی طرح ان سے سنا تھا یا نہیں، سفیان نے کہا کہ یہی ہماری قرآت ہے۔