صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
34. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلاَئِكَةُ يَشْهَدُونَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) ارشاد ”اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو جان کر اتارا ہے“۔
قَالَ مُجَاهِدٌ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ بَيْنَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ وَالْأَرْضِ السَّابِعَةِ.
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ کا فرمان «أنزله بعلمه والملائكة يشهدون‏» اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو جان کر اتارا ہے اور فرشتے بھی گواہ ہیں مجاہد نے بیان کیا کہ آیت «يتنزل الأمر بينهن‏» کا مفہوم یہ ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کے درمیان اللہ کے حکم اترتے رہتے ہیں (سورۃ الطلاق)۔
حدیث نمبر: 7488
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا فُلَانُ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَقُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنَّكَ إِنْ مُتَّ فِي لَيْلَتِكَ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ، وَإِنْ أَصْبَحْتَ أَصَبْتَ أَجْرًا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسحاق ہمدانی نے بیان کیا، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فلان! جب تم اپنے بستر پر جاؤ تو یہ دعا کرو «‏‏‏‏اللهم أسلمت نفسي إليك،‏‏‏‏ ووجهت وجهي إليك وفوضت أمري إليك،‏‏‏‏ وألجأت ظهري إليك،‏‏‏‏ رغبة ورهبة إليك،‏‏‏‏ لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك،‏‏‏‏ آمنت بكتابك الذي أنزلت،‏‏‏‏ وبنبيك الذي أرسلت‏.‏» اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کر دی اور اپنا رخ تیری طرف موڑ دیا اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا اور تیری پناہ لی، تیری طرف رغبت کی وجہ سے اور تجھ سے ڈر کر۔ تیرے سوا کوئی پناہ اور نجات کی جگہ نہیں، میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے نبی پر ایمان لایا جو تو نے بھیجے۔ پس اگر تم آج رات مر گئے تو فطرت پر مرو گے اور صبح کو زندہ اٹھے تو ثواب ملے گا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3876  
´بستر پر لیٹتے وقت کیا دعا پڑھے؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: جب تم سونے لگو یا اپنے بستر پر جاؤ تو یہ دعا پڑھا کرو: «اللهم أسلمت وجهي إليك وألجأت ظهري إليك وفوضت أمري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ (یعنی نفس) تجھ کو سونپ دیا، اپنی پیٹھ تیرے سہارے پر لگا دی، اور اپنا کام تیرے سپرد کر دیا، امیدی ناامیدی کے ساتھ تیری ذات پر بھروسہ کیا، سوائے تیرے سوا کہیں اور کوئی جائے پناہ اور جائے نجات نہیں، میں تیری کتاب پر جسے تو نے نازل کیا، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3876]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت براء بن عاذب ؓ کو فرمایا تھا۔
کہ سوتے وقت نماز کے وضو کی طرح وضو کرکے دایئں کروٹ لیٹ کر یہ دعا پڑھنا۔
مزید یہ دعا فرمائی تھی کہ دوسرے اذکار کے بعد سب سے آخر میں یہ دعا پڑھنا (صحیح البخاري، الدعوات، باب إذا بات طاھراً، حدیث: 6311)

(2)
سوتے وقت یہ دعا پڑھنے سے ایمان کی تجدید ہوجاتی ہے۔
اس لئے یہ دعا پڑھ کر سونا چاہیے-
(3)
وضو کرکے دعا پڑھنے سے ظاہری وباطنی طہارت حاصل ہوتی ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے۔

(4)
اللہ پر توکل بہت اہم اور افضل عمل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3876   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3394  
´آدمی جب اپنے بستر پر سونے کے لیے جائے تو کیا دعا پڑھے؟`
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: کیا میں تمہیں ایسے کچھ کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جانے لگو تو کہہ لیا کرو، اگر تم اسی رات میں مر جاؤ تو فطرت پر (یعنی اسلام پر) مرو گے اور اگر تم نے صبح کی تو صبح کی، خیر (اجر و ثواب) حاصل کر کے، تم کہو: «اللهم إني أسلمت نفسي إليك ووجهت وجهي إليك وفوضت أمري إليك رغبة ورهبة إليك وألجأت ظهري إليك لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے حوالے کر دی، میں اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3394]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی میں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہی کہو،
انہیں بدلو نہیں۔
چاہے یہ الفاظ قرآن کے نہ بھی ہوں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3394   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7488  
7488. سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے فلاں! جب تم اپنے بستر پر جاؤ یہ دعا ہڑھا کرو: اے اللہ! میں نے اپنے بستر کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا رخ تیری طرف موڑ دیا میں نے اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا تجھ سے ڈرتے ہوئے اور تیری طرف رغبت کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا۔ تیرے سوا کوئی پناہ اور جائے نجات نہیں۔ اے اللہ! میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی کو مان لیا جو تو نے بھیجا ہے۔ اگر تواس رات فوت ہو جائے تو فطرت اسلام پر تمہاری موت ہوگی اور اگر صبح کو زندہ اٹھے تو تجھے اجر وثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7488]
حدیث حاشیہ:
لفظ بکتابك الذي أنزلت سے باب کا مطلب ثابت ہوا کہ قرآن مجید اللہ کا اتارہ ہوا کلام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7488   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7488  
7488. سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے فلاں! جب تم اپنے بستر پر جاؤ یہ دعا ہڑھا کرو: اے اللہ! میں نے اپنے بستر کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا رخ تیری طرف موڑ دیا میں نے اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا تجھ سے ڈرتے ہوئے اور تیری طرف رغبت کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا۔ تیرے سوا کوئی پناہ اور جائے نجات نہیں۔ اے اللہ! میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی کو مان لیا جو تو نے بھیجا ہے۔ اگر تواس رات فوت ہو جائے تو فطرت اسلام پر تمہاری موت ہوگی اور اگر صبح کو زندہ اٹھے تو تجھے اجر وثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7488]
حدیث حاشیہ:

عنوان سابق میں اللہ تعالیٰ کا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ہم کلام ہونا بیان ہوا تھا اور اس باب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اپنے علم کے مطابق نازل کیا ہے اور یہ قرآن کریم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر مبارک پر نازل ہوا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے گفتگو کی اور انھیں قرآن کریم اتارنے کا حکم دیا۔
اس طرح دونوں عنوانوں میں مناسبت ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسے اتارا گیا ہے، پیدا نہیں کیا گیا۔
نازل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام حادث ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔
مخلوق کی صفات سے کسی طرح سے بھی مشابہ نہیں ہے۔
اس حدیث میں اس کتاب پر ایمان لانے کا ذکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے، اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔
بہرحال قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہے اور وہ اس کا نازل کیا ہوا ہےکسی اعتبار سے بھی مخلوق نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7488