صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
35. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يُرِيدُونَ أَنْ يُبَدِّلُوا كَلاَمَ اللَّهِ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح) ارشاد ”یہ گنوار چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بدل دیں“۔
حدیث نمبر: 7500
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا، فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكُلٌّ حَدَّثَنِي، طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" وَلَكِنِّي وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ يُنْزِلُ فِي بَرَاءَتِي وَحْيًا يُتْلَى، وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى، وَلَكِنِّي كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ سورة النور آية 11 الْعَشْرَ الْآيَاتِ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نمیری نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے عروہ بن زبیر ‘ سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جب تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور اللہ نے اس سے انہیں بَری قرار دیا تھا۔ ان سب نے بیان کیا اور ہر ایک نے مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کی ہوئی بات کا ایک حصہ بیان کیا۔ ام المؤمنین نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے یہ خیال نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میری پاکی بیان کرنے کے لیے وحی نازل کرے گا جس کی تلاوت ہو گی۔ میرے دل میں میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ میرے بارے میں (قرآن مجید میں) وحی نازل کرے گا جس کی تلاوت ہو گی، البتہ مجھے امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ میری برات کر دے گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آیات «إن الذين جاءوا بالإفك‏» نازل کی ہیں، دس آیات۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 785  
´ «بسم الله الرحمن الرحيم» زور سے نہ پڑھنے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عروہ نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے واقعہ افک کا ذکر کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ نے اپنا چہرہ کھولا اور فرمایا: «أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم‏» ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، اسے ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے مگر ان لوگوں نے یہ بات اس انداز سے ذکر نہیں کی اور مجھے اندیشہ ہے کہ استعاذہ کا معاملہ خود حمید کا کلام ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 785]
785۔ اردو حاشیہ:
امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتا کر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے کہ اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام بھی آئے، کیونکہ قرآن میں ہے: «فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [النحل۔ 98/16]
اللہ کے ذریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔ اور احادیث میں بھی «اعوذ بالله من الشيطان الرجيم» اور «اعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ «اعوذ بالسمع العليم» نہیں ہے، یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے، دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہو گی۔ اور شاذ روایت وہ ہوتی ہے، جس میں مقبول راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔ (اور اس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 785   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1970  
´عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1970]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیویوں سےمعاملات میں زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک مساوات کاسلوک کرنا اور انصاف قائم رکھنا چاہیے۔

(2)
جب ایک چیز کےمستحق ایک سے زیادہ افراد ہوں اور وہ چیز قابل تقسیم نہ ہو تو قرعہ اندازی سےفیصلہ کیا جاتا سکتا ہے۔
قرعہ اندازی شرعاً جائز ہے بشرطیکہ معاملہ قمار (جوئے)
سے تعلق نہ رکھتا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1970   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 912  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے۔ پس جس بیوی کے نام کا قرعہ نکلتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم سفر ہوتی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 912»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة المرأة لغير زوجها.....، حديث:2593، ومسلم، التوبة، باب في حديث الإفك.....، حديث:2770.»
تشریح:
اس حدیث سے کسی مبہم معاملے کے تصفیے کے لیے قرعہ اندازی کا ثبوت ملتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 912   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3180  
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بےخبر تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایان شان تعریف و ثنا کی، اور حمد و صلاۃ کے بعد فرمایا: لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی، وہ میرے گھر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3180]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی اورجسارت کروں۔

2؎:
صبر ہی بہتر ہے اور جو تم کہتے،
بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی معاون ومددگار ہے۔

3؎:
اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں (النور: 22)

4؎:
رشتہ والوں،
مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے۔
(النور: 22)

5؎:
کیا تمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے،
اللہ بخشنے والا مہربان ہے (النور: 22)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3180   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7500  
7500. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ سے روایت ہے، انہوں نے منافقین کی طرف سے لگائے گئے بہتان کے متعلق فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے حق میں وحی نازل فرمائے گا جس کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ میرے نزدیک میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسا کلام کرے جس کی تلاوت کی جائے البتہ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہﷺ بحالت نیند کوئی خواب دیکھ لیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براءت کردے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دس آیات نازل فرمائیں: بے شک جن لوگوں نے بہتان گھڑا۔۔۔۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7500]
حدیث حاشیہ:
دس آیتیں جوسورۂ نور میں ہیں۔
مقصد اللہ کاکلام ثابت کرنا ہے جو بخوبی ظاہر ہے۔
آیات مذکورہ حضرت عائشہ ؓ کی برأت سے متعلق نازل ہوئیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی اور رسول کریم ﷺ کی بہت ہی محبوبہ بیوی ہیں جن کےمناقب بہت ہیں۔
سنہ 85ھ بماہ رمضان 18 کی شب میں وفات ہوئی۔
رات میں دفن کیا گیا۔
ان دنوں حضرت ابوہریرہ عامل مدینہ تھے۔
انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی۔
رضي اللہ عنا و أرضاھا
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7500   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7500  
7500. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ سے روایت ہے، انہوں نے منافقین کی طرف سے لگائے گئے بہتان کے متعلق فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے حق میں وحی نازل فرمائے گا جس کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی۔ میرے نزدیک میرا درجہ اس سے بہت کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق کوئی ایسا کلام کرے جس کی تلاوت کی جائے البتہ مجھے یہ امید ضرور تھی کہ رسول اللہﷺ بحالت نیند کوئی خواب دیکھ لیں گے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ میری براءت کردے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دس آیات نازل فرمائیں: بے شک جن لوگوں نے بہتان گھڑا۔۔۔۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7500]
حدیث حاشیہ:
غزہ بنومصطلق سے واپسی پر منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگائی جس کی تفصیل کتاب التفسیر میں بیان ہوئی ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نےحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس بہتان سے بری قراردیا۔
اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعے سے اپنے احکام بھیجتا ہے، لیکن اس کا کلام صرف قرآن مجید کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس کلام کے ذریعے سے اپنے بندوں کی اصلاح کرتا ہے۔
اس کا کلام غیرمخلوق ہےاور اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں محصور نہیں ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کاکلام کرنا ثابت کیا ہے جس کا معتزلہ اور جہمیہ انکار کرتے ہیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7500