صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
36. بَابُ كَلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الأَنْبِيَاءِ وَغَيْرِهِمْ:
باب: اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن انبیاء اور دوسرے لوگوں سے کلام کرنا برحق ہے۔
حدیث نمبر: 7512
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلِهِ، وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ، وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ"، قَالَ الْأَعْمَشُ، وَحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ مِثْلَهُ، وَزَادَ فِيهِ وَلَوْ بِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ.
ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں خیثمہ نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر شخص سے تمہارا رب اس طرح بات کرے گا کہ تمہارے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا وہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اور اسے اپنے اعمال کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا اور وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا اور اسے اپنے اعمال کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ پھر اپنے سامنے دیکھے گا تو اپنے سامنے جہنم کے سوا اور کوئی چیز نہ دیکھے گا۔ پس جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے۔ اعمش نے بیان کیا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے خیشمہ نے اسی طرح اور اس میں یہ لفظ زیادہ کئے کہ (جہنم سے بچو) خواہ ایک اچھی بات ہی کے ذریعہ ہو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث185  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) بغیر کسی ترجمان کے ہم کلام ہو گا ۱؎، بندہ اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو اپنے آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر بائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر اپنے آگے دیکھے گا تو جہنم اس کے سامنے ہو گی پس جو جہنم سے بچ سکتا ہو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کو اللہ کی راہ میں دے کر تو اس کو ضرور ایسا کرنا چاہیئے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 185]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔ (بندے کو اپنے اعمال کا خود ہی حساب دینا پڑے گا، اس لیے کسی بزرگ کی سفارش وغیرہ پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
جہنم سے بچاؤ کے لیے نیک اعمال ضروری ہیں۔

(4)
صدقہ بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ رکھنے والا نیک عمل ہے۔

(5)
اگر بڑا نیک عمل کرنے کی طاقت نہ ہو تو چھوٹا عمل کر لینا چاہیے، کچھ نہ کرنے سے چھوٹی نیکی بھی بہتر ہے۔

(6)
کسی نیکی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، خلوص کے ساتھ کی گئی چھوٹی سی نیکی بھی اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 185   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2415  
´قیامت کے دن حساب اور بدلے کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2415]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے،
اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے،
اورنیک عمل کرتا رہے،
کیوں کہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2415   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7512  
7512. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا رب اس طرح گفتگو کرے گا کہ اس (بندے) اور اس (رب) کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے اپنے اعمال کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا اور اپنی بائیں جانب دیکھے گا تو بھی اسے اپنے اعمال کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا، پھر جب اپنے سامنے دیکھے گا تو اپنے سامنے جہنم کے سوا کوئی چیز نہ دیکھے گا اس لیے تم جہنم سے بچنے کی فکر کرو، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنے سے کیوں نہ ہو۔ ایک روایت میں ہے: (جہنم سےبچو) خواہ ایک اچھی بات ہی کے ذریعے سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7512]
حدیث حاشیہ:
حدیث ھذا میں صاف طور پر بندے سے اللہ کا کلام کرنا ثابت ہے جو براہ راست بغیر کسی واسطہ کے خود ہوگا۔
توحید کے بعد وہ جو اعمال کام آئیں کے ان میں فی سبیل اللہ کسی غریب مسکین یتیم بیوہ کی مدد کرنا بڑی اہمیت رکھتا ہے وہ مدد خواہ کتنی ہی حقیر ہوا گر اس میں خلوص ہے تو اللہ اسے بہت بڑھا دے گا۔
ادنیٰ سےادنیٰ مد کھجور کا آدھا حصہ بھی ہے۔
اللہ توفیق بخشے اورقبول کرے۔
حضرت عدی بن حاتم سنہ 67ھ میں بعمر 110 سال کوفہ میں فوت ہوئے۔
بڑے خاندانی بزرگ تھے۔
بہت بڑے سخی حاتم طائی کےبیٹے ہیں۔
شعبان سنہ 7ھ میں مسلمان ہوئے۔
بعض مؤرخین ان کی عمر ایک سو اسی برس لکھی ہے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7512   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7512  
7512. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا رب اس طرح گفتگو کرے گا کہ اس (بندے) اور اس (رب) کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے اپنے اعمال کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا اور اپنی بائیں جانب دیکھے گا تو بھی اسے اپنے اعمال کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا، پھر جب اپنے سامنے دیکھے گا تو اپنے سامنے جہنم کے سوا کوئی چیز نہ دیکھے گا اس لیے تم جہنم سے بچنے کی فکر کرو، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنے سے کیوں نہ ہو۔ ایک روایت میں ہے: (جہنم سےبچو) خواہ ایک اچھی بات ہی کے ذریعے سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7512]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے براہ راست ہم کلام ہوگا۔
ان کے درمیان کوئی واسطہ یا ترجمان نہیں ہو گا۔
توحید باری تعالیٰ کے بعد قیامت کے دن جو اعمال کام آئیں گے ان میں سے کسی غریب، مسکین اور حاجت مند کی فی سبیل اللہ مدد کرنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
وہ مدد خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو اگر اس میں خلوص ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بہت بڑھا دے گا۔
اگر اتنی بھی ہمت نہیں تو دوسروں کو بھلی بات کہنا بھی بہت وزن رکھتی ہے۔
زبان سے دوسروں کی خیرخواہی کرنے کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا جائے تو یہ عمل بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت کار آمد اور ثمر آور ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7512