صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
41. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلاَ أَبْصَارُكُمْ وَلاَ جُلُودُكُمْ وَلَكِنْ ظَنَنْتُمْ أَنَّ اللَّهَ لاَ يَعْلَمُ كَثِيرًا مِمَّا تَعْمَلُونَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ حم سجدہ) میں فرمان ”تم جو دنیا میں چھپ کر گناہ کرتے تھے تو اس ڈر سے نہیں کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے تمہارے خلاف قیامت کے دن گواہی دیں گے (تم قیامت کے قائل ہی نہ تھے) تم سمجھتے رہے کہ اللہ کو ہمارے بہت سارے کاموں کی خبر تک نہیں ہے“۔
حدیث نمبر: 7521
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" اجْتَمَعَ عِنْدَ الْبَيْتِ ثَقَفِيَّانِ، وَقُرَشِيٌّ، أَوْ قُرَشِيَّانِ، وَثَقَفِيٌّ كَثِيرَةٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ قَلِيلَةٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: أَتَرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ؟، قَالَ الْآخَرُ: يَسْمَعُ إِنْ جَهَرْنَا وَلَا يَسْمَعُ إِنْ أَخْفَيْنَا، وَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَهَرْنَا فَإِنَّهُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ وَلا جُلُودُكُمْ سورة فصلت آية 22.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے منصور نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے بیان کیا، ان سے ابومعمر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ خانہ کعبہ کے پاس دو ثقفی اور ایک قریشی یا (یہ کہا کہ) دو قریشی اور ایک ثقفی جمع ہوئے جن کے پیٹ کی چربی بہت تھی (توند بڑی تھی) اور جن میں سوجھ بوجھ کی بڑی کمی تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ تمہارا خیال ہے کہ اللہ وہ سب کچھ سنتا ہے جو ہم کہتے ہیں۔ دوسرے نے کہا کہ جب ہم زور سے بولتے ہیں تو سنتا ہے لیکن اگر ہم آہستہ بولیں تو نہیں سنتا۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی «وما كنتم تستترون أن يشهد عليكم سمعكم ولا أبصاركم ولا جلودكم‏» تم جو دنیا میں چھپ کر گناہ کرتے تھے تو اس ڈر سے نہیں کہ تیرے کان تمہاری آنکھیں اور تمہارے چمڑے تمہارے خلاف قیامت کے دن گواہی دیں گے آخر تک۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7521  
7521. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:ایک دفعہ حرم کعبہ میں دو ثقفی اور ایک قریشی اور ایک ثقفی یا دو قریشی اور ایک ثقفی اکھٹے ہوئے۔ یہ تینوں خوب موٹے تازے تھے۔ ان کی توندیں نکلی ہوئی تھیں مگر ان کے دل سمجھ بوجھ سے کورے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سن سکتا ہے؟ دوسرا بولا: ہاں، اگر ہم اونچی آواز سے باتیں کریں تب تو سن لیتا ہے اور اگر آہستہ آواز سے بات کریں تو پھر نہیں سنتا۔ تیسرا کہنے لگا: اور وہ اونچی آواز سے سن لیتا ہے تو آہستہ آواز والی بات بھی سن سکتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: تم جو دنیا میں چھپ کر گناہ کرتے تھے تو اس بات سے نہیں ڈرتے تھے کہ تمہارے کان تمہاری آنکھیں اور تمہاری جلدیں تمہارے خلاف قیامت کے دن گواہی دیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7521]
حدیث حاشیہ:

بد عقیدگی اور بدعملی میں مبتلا کفارومشرکین کے حاشیہ خیال میں یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ ان کے خلاف گواہی دینے والے ان کے اعضاء بھی ہو سکتے ہیں لہٰذا ان گناہوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔
اگر وہ یہ سوچ لیتے تو ان سے گناہ اور نافرمانی کا سر زد ہونا ہی نا ممکن تھا کیونکہ نہ وہ خود اپنے اعضاء سے چھپ سکتے تھے اور نہ ان سے گناہ کوہی چھپا سکتے تھے اور نہ ان کے بغیر گناہ کا کام کر سکتے تھے ابن بطال نے لکھا ہے کہ اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اللہ تعالیٰ کے لیے صفت سمع کا اثبات ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے لیے صفت کلام ثابت کرنا ہے کہ وہ جب چاہے کلام کرنے پر قادر ہے۔
(فتح الباري: 13/ 616)

ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ بندوں کے اعمال ان کے اختیار سے واقع ہوتے ہیں اور کلام اسی کی صفت ہوتی ہے جو اسے ادا کرتا ہے۔
انسان کے اعضاء قیامت کے دن جب ان کے خلاف گواہی دیں گے تو ان کی گفتگو اور گواہی کومبنی بر حقیقت قرار دیا جائے گا اور اس وقت ان کا کلام اعضاء کی طرف منسوب ہو گا اسی طرح ہر متکلم کا کلام اس کا فعل اور صفت ہے اس کے برعکس جو کسی دوسرے کا کلام نقل کرتا ہے وہ اس کا کلام نہیں بلکہ وہ اس کا ناقل ہےالبتہ ہونٹوں اور زبان کی حرکت نیز اس کی آواز نقل کرنے والے کی شمار ہو گی اور الفاظ و حروف سے جو کلام ادا ہو رہا ہے اس کی نسبت اس غیر کی طرف ہو گی جس کا کلام نقل کیا جا رہا ہے جیسا کہ مشہور مقولہ ہے۔
آواز تو قاری کی ہوتی ہے البتہ کلام ذات باری کا شمار کیا جائے گا۔

بعض حضرات کو شبہ لاحق ہوا ہے کہ آیت کریمہ میں (تَعْمَلُونَ)
کی نسبت انسانوں کی طرف ہے لہٰذا وہ اپنے افعال کے خلق ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس شبہے کا ازالہ اس طرح کیا ہے کہ آیت کریمہ میں عمل کی نسبت بندوں کی طرف باعتبار کسب اور ارتکاب کے ہے البتہ بحیثیت تخلیق اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7521