صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
44. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الملک میں) ارشاد ”اپنی بات آہستہ سے کہو یا زور سے اللہ تعالیٰ دل کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ کیا وہ اسے نہیں جانے گا جو اس نے پیدا کیا اور وہ بہت باریک دیکھنے والا اور خبردار ہے“۔
{يَتَخَافَتُونَ} يَتَسَارُّونَ.
‏‏‏‏ «يتخافتون‏» کے معنی «يتسارون‏» یعنی جو چپکے بات کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 7525
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، عَنْ هُشَيْمٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ: نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مختف بمكة، فكان إذا صلى بأصحابه رفع صوته بالقرآن، فإذا سمعه المشركون سبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به، فقال الله لنبيه صلى الله عليه وسلم: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أي بقراءتك فيسمع المشركون فيسبوا القرآن وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ فَلَا تُسْمِعُهُمْ وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110.
مجھ سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، ان سے ہشیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، انہیں سعید بن جبیر نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏» کے بارے میں کہ یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر (اعمال اسلام ادا کرتے تھے) لیکن جب اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتے تو قرآن مجید بلند آواز سے پڑھتے، جب مشرکین سنتے تو قرآن مجید کو، اس کے اتارنے والے کو اور اسے لے کر آنے والے کو گالی دیتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنی قرآت میں آواز بلند نہ کریں کہ مشرکین سنین اور پھر قرآن کو گالی دیں اور نہ اتنا آہستہ ہی پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان کا راستہ اختیار کریں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1012  
´آیت کریمہ: اے محمد! نہ اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بہت پست آواز سے کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏» کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپے رہتے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کو نماز پڑھاتے تو اپنی آواز بلند کرتے، (ابن منیع کی روایت میں ہے: قرآن زور سے پڑھتے) جب مشرکین آپ کی آواز سنتے تو قرآن کو اور جس نے اسے نازل کیا ہے اسے، اور جو لے کر آیا ہے اسے سب کو برا بھلا کہتے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے محمد! اپنی نماز یعنی اپنی قرأت کو بلند نہ کریں کہ مشرکین سنیں تو قرآن کو برا بھلا کہیں، اور نہ اسے اتنی پست آواز میں پڑھیں کہ آپ کے ساتھی سن ہی نہ سکیں، بلکہ ان دونوں کے بیچ کا راستہ اختیار کریں۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1012]
1012۔ اردو حاشیہ:
➊ مشرکین سے قطع نظر نماز کے اندر امام درمیانی آواز اختیار کرے۔ اسی طرح نفل نماز پڑھنے والا اتنی آواز رکھے جس سے دوسرو ں کی نماز یا آرام میں خلل بھی نہ پڑے اور اس کی آواز بھی سنائی دے۔ ویسے بھی منہ میں پڑھنے سے وہ تاثر پیدا نہیں ہوتا جو آواز کے ساتھ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ ابتدائے اسلام میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دیتے تو مشرکین آپ کو تکلیفیں دیتے تھے۔ آپ اور آپ کے صحابہ چھپ کر نماز پڑھتے اور مسلسل دعوت کا کام کرتے رہے، اسی طرح ہر داعی کو بچاؤ کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور مخالفین کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرے۔ آخر کار کامیابی دین اسلام ہی کی ہے، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دعوت دینے والا ہر اس کام اور بات سے دور رہے جس سے لوگوں کواللہ، اس کے رسول اور دین اسلام پر طعن و تشنیع کرنے کا موقع ملے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1012   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3145  
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔`
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك» اپنی صلاۃ بلند آواز سے نہ پڑھو (بنی اسرائیل: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اور جس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے «ولا تجهر بصلاتك» نازل کر کے نماز میں قرآن بلند آواز سے پڑھنے سے منع فرما دیا تاکہ وہ قرآن، اللہ تعالیٰ اور جبرائیل علیہ السلام کو گالیاں نہ دیں اور آگے «ولا تخافت بها» نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3145]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اپنی نماز بلندآوازسے نہ پڑھو (بنی اسرائیل: 110)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3145   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7525  
7525. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے درج زیل ارشاد باری تعالیٰ کے متعلق فرمایا: اور آپ اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پست آواز سے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہﷺ مکہ میں کافروں سے چھپے رہتے تھے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن اور قرآن لانے والے (سیدنا جبریل ؑ) سب کو برا بھلا کہتے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ نماز میں بآواز بلند قرآن نہ پڑھیں کہ مشرکین قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اس قدر آہستہ پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ ان کے درمیان راستہ اختیار کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7525]
حدیث حاشیہ:
کفارمکہ کا یہی حال تھا جو یہاں بیان ہوا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کےعلم وفضل کے لیے خود رسول کریم ﷺ نے دعا فرمائی تھی ان کو اس امت کا رہبان کہا گیا ہے بعمر 71 سال سنہ 68ھ میں فوت ہوئے۔
طائف میں دفن ہوئے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7525