صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
7. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الْمُنَاوَلَةِ وَكِتَابِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْعِلْمِ إِلَى الْبُلْدَانِ:
باب: مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر (دوسرے) شہروں کو بھیجنا۔
حدثنا موسي بن اسمعيل قال حدثنا سليمان بن المغير ة قال حدثنا قال حدثنا ثابت عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم وکان يعجبنا ان يجئ الرجل من اهل البادية فساله ونحن نسمع فجائ رجل من اهل البادية فساله فقال اتانا رسولک فاخبر نا انک تزعم ان الله عزوجل ارسلک قال صدق فقال فمن خلق السمائ قال الله عزوجل قال فمن خلق الارض والجبال قال الله عزوجل قال فمن جعل فيها المنافع قال الله عزوجل قال فقاالذي خلق السمائ وخلق الارض و نصب الجبال وجعل فيها المنافع الله ارسلک قال نعم قال زعم رسو لک ان علينا خمس صلوات وزکوة في اموالنا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال وزعم رسولک ان علينا حج البيت من استطاع اليه سبيلا قال صدق قال بالذي ارسلک الله امرک بهذا قال نعم قال فوالذي بعثک بالحق لا ازيد عليهن شيئا ولاانقص فقال النبي صلي الله عليه وسلم ان صدق ليد خلن الجنة
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔ (اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے) پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کیا اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ (بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (نوٹ: صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے)۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت قبل الحديث صحيح بخاري 64  
´ صحیح بخاری حدیث کی سند `
«. . . حدثنا موسي بن اسمعيل قال حدثنا سليمان بن المغير ة قال حدثنا قال حدثنا ثابت عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم . . .»
. . . ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: Q64-2]

فوائد و مسائل:
اس حدیث کو امام بخاری نے موسیٰ بن اسماعیل سے انہوں نے سلیمان بن المغیرہ سے انہوں نے ثابت سے انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
[صحیح مسلم:12 یا 102]
[سنن الترمذی:619، مختصراً وقال: ھذاحدیث حسن غریب]
[سنن النسائی:121/4، ح:2093]
[مسند احمد:3، 142، 193]
[مستخرج ابی عوانہ:2/1، 3]
صحیح بخاری کی تعلیق کی سند حافظ ابن حجر اور عینی حنفی دونوں نے بیان کر دی ہے مگر معترض صاحب یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ کوئی سند پیش کی ہے یا کسی .....۔‏‏‏‏
   توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 29   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q64-2  
´دینی امور اہل علم سے پوچھنا`
«. . . حدثنا ثابت عن انس قال نهينا في القرآن ان نسال النبي صلي الله عليه وسلم وکان يعجبنا ان يجئ الرجل من اهل البادية . . .»
. . . ثابت نے انس سے نقل کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم کو قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: Q64]

تشریح:
صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے۔ شرح قسطلانی رحمہ اللہ میں بھی یہ روایت یہاں نہیں ہے۔ بہرحال صحابہ کرام کو غیر ضروری سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا، وہ احتیاطاً خاموشی اختیار کر کے منتظر رہا کرتے تھے کہ کوئی باہر کا آدمی آ کر مسائل معلوم کرے اور ہم کو سننے کا موقع مل جائے۔ اس روایت میں بھی شاید وہی ضمام بن ثعلبہ مراد ہیں جن کا ذکر پچھلی روایت میں آ چکا ہے۔ اس کے تمام سوالات کا تعلق اصول و فرائض دین سے متعلق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اصولی طور پر فرائض ہی کا ذکر فرمایا۔ نوافل فرائض کے تابع ہیں چنداں ان کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی اس لیے اس بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ اس سے سنن و نوافل کی اہمیت جو اپنی جگہ پر مسلم ہے وہ کم نہیں ہوئی۔

ایک بے جا الزام:
صاحب ایضاح البخاری جیسے سنجیدہ مرتب کو خداجانے کیا سوجھی کہ حدیث طلحہ بن عبیداللہ جو کتاب الایمان میں بذیل باب الزکوٰۃ من الاسلام مذکور ہوئی ہے اس میں آنے والے شخص کو اہل نجد سے بتلایا گیا ہے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ ضمام بن ثعلبہ ہی ہیں۔ بہرحال اس ذیل میں آپ نے ایک عجیب سرخی دور حاضرہ کا ایک فتنہ سے قائم فرمائی ہے۔ پھر اس کی توضیح یوں کی ہے کہ اہل حدیث اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے سنن کے اہتمام سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ [ايضاح البخاري،جلد4، ص: 386]
اہل حدیث پر یہ الزام اس قدر بے جا ہے کہ اس پر جتنی بھی نفریں کی جائے کم ہے۔ کاش آپ غور کرتے اور سوچتے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ جو جماعت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی وجہ سے آپ کے ہاں انتہائی معیوب ہے۔ وہ بھلا سنن کے اہتمام سے پہلو تہی کرے، یہ بالکل غلط ہے۔ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص ایسا کر گزرتا ہے تو اس فعل کا وہ خود ذمہ دار ہے یوں کتنے مسلمان خود نماز فرض ہی سے پہلو تہی کرتے ہیں تو کیا کسی غیر مسلم کا یہ کہنا درست ہو جائے گا کہ مسلمانوں کے ہاں نماز کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
اہل حدیث کا تو نعرہ ہی یہ ہے۔
«ماعا شقيم بے دل دلدار ما محمد . . . ما بلبليم نالاں گلزار ما محمد صلى الله عليه وسلم»
ہاں! اہل حدیث یہ ضرور کہتے ہیں کہ فرض و سنن و نوافل کے مراتب الگ الگ ہیں۔ کوئی شخص کبھی کسی معقول عذر کی بنا پر اگر سنن و نوافل سے محروم رہ جائے وہ اسلام سے خارج نہیں ہو جائے گا۔ نہ اس کی ادا کردہ فرض نماز پر اس کا کچھ اثر پڑے گا، اگر اہل حدیث ایسا کہتے ہیں تو یہ بالکل بجا ہے۔ اس لیے کہ یہ تو خود آپ کا بھی فتوی ہے۔ جیسا کہ آپ خود اسی کتاب میں فرما رہے ہیں، آپ کے لفظ یہ ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بے کم وکاست عمل کرنے کی قسم پر دخول جنت کی بشارت دی کیونکہ اگر بالفرض وہ صرف انہیں تعلیمات پر اکتفا کر رہا ہے اور سنن و نوافل کو شامل نہیں کر رہا ہے۔ تب بھی دخول جنت کے لیے تو کافی ہے۔ [ایضاح البخاری، جلد5،ص: 31]
صدافسوس کہ آپ یہاں ان کو داخل جنت فرما رہے ہیں اور پچھلے مقام پر آپ ہی اسے دور حاضرہ کا ایک فتنہ بتلاتے ہیں۔ ہم کو آپ کی انصاف پسند طبیعت سے پوری توقع ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح فرما دیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 64   
وَقَالَ أَنَسٌ نَسَخَ عُثْمَانُ الْمَصَاحِفَ، فَبَعَثَ بِهَا إِلَى الآفَاقِ. وَرَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَمَالِكٌ ذَلِكَ جَائِزًا. وَاحْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْحِجَازِ فِي الْمُنَاوَلَةِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ كَتَبَ لأَمِيرِ السَّرِيَّةِ كِتَابًا وَقَالَ: «لاَ تَقْرَأْهُ حَتَّى تَبْلُغَ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا» . فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الْمَكَانَ قَرَأَهُ عَلَى النَّاسِ، وَأَخْبَرَهُمْ بِأَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اور انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف (یعنی قرآن) لکھوائے اور انہیں چاروں طرف بھیج دیا۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، یحییٰ بن سعید، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ (کتابت) جائز ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے امیر لشکر کے لیے خط لکھا تھا۔ پھر (قاصد سے) فرمایا تھا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاؤ اس خط کو مت پڑھنا۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس نے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا وہ انہیں بتلایا۔
حدیث نمبر: 64
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِكِتَابِهِ رَجُلًا وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ، فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ".
اسماعیل بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے صالح کے واسطے سے روایت کی، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ (شاہ ایران) کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا (راوی کہتے ہیں) اور میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے (اس کے بعد) مجھ سے کہا کہ (اس واقعہ کو سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ (بھی چاک شدہ خط کی طرح) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 64  
´اہل ایران کے لیے بددعا`
«. . . فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ (بھی چاک شدہ خط کی طرح) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 64]

تشریح:
اللہ نے بہت جلد اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر ظاہر کر دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 64   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 64  
64. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط ایک شخص کے ہمراہ بھیجا اور اس سے فرمایا: یہ خط بحرین کے گورنر کو پہنچا دے۔ پھر حاکم بحرین نے اس کو کسریٰ تک پہنچا دیا۔ کسریٰ نے اسے پڑھ کر چاک کر دیا۔ راوی (ابن شہاب) نے کہا: میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے کہا: (اس واقعے کو سن کر) رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ وہ ہر طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:64]
حدیث حاشیہ:
اللہ نے بہت جلد اپنے سچے رسول کی دعا کا اثر ظاہر کردیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 64   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2936  
´مسلمان اہل کتاب کو دین کی بات بتلائے یا ان کو قرآن سکھائے؟`
«. . . أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ، وَقَالَ:" فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (روم کے بادشاہ) قیصر کو (خط) لکھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر تم نے (اسلام کی دعوت سے) منہ موڑا تو (اپنے گناہ کے ساتھ) ان کاشتکاروں کا بھی گناہ تم پر پڑے گا (جن پر تم حکمرانی کر رہے ہو)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2936]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2936 کا باب: «بَابُ هَلْ يُرْشِدُ الْمُسْلِمُ أَهْلَ الْكِتَابِ أَوْ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اہل کتاب کو دین سکھانے اور قرآن کی تعلیم دینے پر جواز پیش فرمایا ہے، مگر دلیل کے طور پر ترجمۃ الباب سے حدیث کا تعلق نظر نہیں آتا، کیونکہ حدیث میں کسی آیت کے سکھانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا رحجان یہ نظر آتا ہے کہ اہل کتاب کو دین اور قرآن سکھایا جا سکتا ہے مگر حدیث میں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں ہے۔
در اصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس جگہ پر اس حدیث کو مختصرا ذکر فرمایا ہے اور مکمل حدیث «باب دعا النبى صلى الله عليه وسلم إلى الاسلام والنبوة» میں ذکر فرمائی ہے جس میں واضح طور پر وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قیصر کی طرف خط بھیجا تو اس میں قرآن مجید کی آیت درج کروائی تھی:
« ﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾ » [آل عمران: 64]
لہذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے، مذکورہ بالا ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں، پہلے جزء کی مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور فرمایا: «فان توليت» کیونکہ یہ جملہ اور اس کا انداز بیان بتا دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں رشد کی طرف دعوت دے رہے ہیں، دوسرا جزء یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فان عليك اثم الأريسينين.» یہ ذکر اور وعید ہے۔ ان دونوں کی مناسبت بھی ترجمۃ الباب سے واضح ہے۔
لہذا ترجمۃ الباب میں اس طرف اشارہ ہوا کہ مسلمانوں کو خصوصا مسلمان حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ کافروں اور اہل کتاب پر دین اسلام کی دعوت پیش کریں۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل کتاب کی رہنمائی اور انہیں دین اسلام کی دعوت دینا مسلمان حاکموں پر واجب ہے، اور یہ ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ [شرح ابن بطال، ج 5، ص: 116]
فائدہ نمبر 1:
کافر جس کو قرآن کی تعلیم دینے کا حکم ہے۔
اس مسئلے میں ائمہ کا اختلاف رہا ہے کہ آیا کافروں کو قرآن کی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ نہیں، بعض اہل علم کا رحجان اس طرف ہے کہ کافروں کو دعوت نہیں دی جا سکتی، اور بعض کا رحجان اس طرف ہے کہ اگر ان کا اسلام قبول کرنا ممکن ہو اور امید ہو تو جائز ہے۔
① امام مالک رحمہ اللہ کا رحجان اور ان کے دلائل:
امام مالک رحمہ اللہ مطلقا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ (دیکھئے: [اكمال اكمال المعلم على شرح صحيح مسلم 5/216])
امام مالک رحمہ اللہ قرآن مجید کی اس آیت سے اپنے موقف کو ثابت کرتے ہیں: « ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾ » [التوبة: 28] یعنی مشرکین ناپاک ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ کا استدلال اس حدیث سے بھی ہے، چنانچہ حدیث میں موجود ہے:
«نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يسافر بالقرآن إلى أرض العدو.» [صحيح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 4840]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ملک کی طرف قرآن مجید ساتھ لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ بعض مالکیہ بطور وعظ و نصیحت کے ایک یا دو آیات کے جواز کے قائل بھی ہیں۔ [اكمال الكمال المعلم: 5/216]
احناف کے دلائل:
احناف کا رحجان اس طرف ہے کہ کافر چاہے حربی ہو یا ذمی اسے قرآن وغیرہ سکھانے میں کوئی حرج نہیں، احناف نے اپنے موقف کے لئے یہ آیت پیش فرمائی ہیں:
« ﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ﴾ » [التوبة: 6]
اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیں تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے۔
احناف کی دلیل حدیث سے:
«مر النبى صلى الله عليه وسلم على عبدالله ابن أبى قبل أن يسلم وفي المجلس اخلاط من المسلمين و المشركين واليهود فقراء عليهم القرآن.» [عمدة القاري، ج 14، ص: 306]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس سے گزرے ان کے اسلام لانے سے قبل اور اس مجلس میں مسلمان، مشرکین اور یہودی موجود تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو قرآن سنایا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا رحجان:
امام شافعی رحمہ اللہ سے دونوں طرح کے اقوال ثابت ہیں:
[اكمال اكمال المعلم و شرح على صحيح مسلم، 57، ص: 117 - فتح الباري، ج 6، ص: 133]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا رحجان:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسلام قبول کرنے کی شرط پر جائز قرار دیتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک اگر اسلام قبول کرنے کی امید نہ ہو تو کفار کو قرآن کی تعلیم دینا جائز نہیں۔ [المغني لابن قدامة، ج 9، ص: 289]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رحجان:
«والذي يظهر أن الراجح التفصيل بين من يرجى منه الرغبة فى الدين والدخول فيه . . .» [فتح الباري، ج 6، ص: 133]
میرے نزدیک جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ امید ہو کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے گا اور اس کی رغبت ہو اسلام کی طرف، یا کم سے کم اس سے نقصان کا خطرہ نہ ہو تو اسے قرآن سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔
مذکورہ بالا ائمہ کے دلائل کو دیکھا جائے اور ان پر غور کیا جائے تو یہی (Conditions) سامنے آتی ہیں جس کا ذکر حافظ صاحب نے فرمایا۔
ہرقل اور قیصر کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط بھیجے اس میں یہ امید تھی کہ کوئی نہ کوئی ایمان لے آئے گا اور کئی مواقع پر اس قسم کی نصرت الہی ظاہر ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے شہر یا ملک میں قرآن لے جانے سے منع فرمایا اسی وجہ سے کہ وہاں بےادبی اور گستاخی جیسے رویہ کا خطرہ موجود ہو، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان اور رحجان اس طرف ہے کہ کافروں کی راہنمائی کی جا سکتی ہے اور انہیں قرآن کی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔
فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں: «أن رسول الله كتب . . .» کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا۔ یاد رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أن النبى صلى الله عليه وسلم كتب إلى قيصر، و حديثه كتب إلى النجاشي، و حديثه كتب إلى كسرى، و حديث عبدالله بن عكيم كتب إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وغير هذه الأحاديث كلها محمولة على أمر الكاتب.» [تلخيص الحبير، ج 3، ص: 128]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا قیصر کی طرف، کسری کی طرف اور عبداللہ بن عکیم نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ہماری طرف، اس کے علاوہ اور بھی جتنی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجود ہے وہ سب احادیث اس امر پر محمول ہیں کہ لکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خود نہیں لکھا بلکہ) کاتبوں سے لکھوایا۔ [تلخيص الحبير لابن حجر عسقلاني، ج 3، ص: 128 - سير اعلام النبلاء للذهبي، ج 9، ص: 437] یا پھر راقم کی کتاب [تفهيم حديث، ج 1، ص: 73-80]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 415   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:64  
64. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط ایک شخص کے ہمراہ بھیجا اور اس سے فرمایا: یہ خط بحرین کے گورنر کو پہنچا دے۔ پھر حاکم بحرین نے اس کو کسریٰ تک پہنچا دیا۔ کسریٰ نے اسے پڑھ کر چاک کر دیا۔ راوی (ابن شہاب) نے کہا: میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے کہا: (اس واقعے کو سن کر) رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے بددعا کی کہ وہ ہر طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:64]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث بیان فرمانے کے لیے مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔
یہ باب مناولہ اورمکاتبہ کے اثبات کے لیے ہے۔
اس حدیث سے مناولہ بایں طور پر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکتوب گرامی دیا اور فرمایا کہ یہ خط بحرین کے گورنرکوپہنچادیں اور اسے بتائیں کہ اسے ایران کے بادشاہ کسریٰ تک پہنچادے، حالانکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ خود مکتوب پڑھا اور نہ ہی سنا۔
یہ اگرچہ اصطلاحی مناولہ نہیں، تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اثبات کے لیے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوتی ہے۔
اور مکاتبہ کا انطباق تو بالکل ظاہر ہے۔
(فتح الباري: 205/1)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مصنف نے عنوان میں دوامور کا ذکر کیا تھا:
مناولہ اورمکاتبہ، پھر پیش کردہ حدیث سے عنوان کا دوسرا جز ثابت کیا جس سے جز اول کا ثبوت بطریق اولیٰ نکل آیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد شاہان عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ فرمائے، حدیث میں مذکورہ خط بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اس خط کو آپ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کیا تاکہ وہ بحرین کے گورنر کے ذریعے سے شاہ فارس کسریٰ کو پہنچادیں۔
یہ زمانہ خسرو پرویز کا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا حرف بحرف پوری ہوئی، چنانچہ خسرو پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا اور وہ خود خطرناک زہر کھانے کے بعد ہلاک ہوگیا۔
اس کے بعد سلطنت کے معاملات اس کی بیٹی کے سپرد کیے گئے، وہ اس وسیع سلطنت کاانتظام نہ کرسکی، بالآخر طوائف الملوکی شروع ہوگئی اور سلطنت کانام ونشان تک مٹ گیا۔
(شرح الکرماني: 22/2)
اس حدیث سے اہل علم کی علمی باتوں کوتحریر کر کے دیگر ممالک ارسال کرنے کا ثبوت ملتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلم حکومت سے اعلان جنگ سے پہلے اسے دین اسلام کی دعوت دی جائے، اگر وہ بے ادبی اورگستاخی کریں تو ان کے خلاف بددعا کی جائے۔
خبرواحد کی حجیت کا ثبوت بھی اس حدیث سے ملتا ہے۔
(شرح الکرماني: 22/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 64