صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
51. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنْ تَفْسِيرِ التَّوْرَاةِ وَغَيْرِهَا مِنْ كُتُبِ اللَّهِ بِالْعَرَبِيَّةِ وَغَيْرِهَا:
باب: تورات اور اس کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں کی تفسیر اور ترجمہ عربی وغیرہ میں کرنے کا جائز ہونا۔
حدیث نمبر: 7542
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ سورة البقرة آية 136.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل کتاب توریت کو عبرانی میں پڑھتے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نہ اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ اس کی تکذیب، بلکہ کہو کہ ہم اللہ اور اس کی تمام نازل کی ہوئی کتابوں پر ایمان لائے۔ الآیہ۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 155  
´اسرائیلیت کی تصدیق یا تکذیب کی ممانعت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ أهل الْكتاب يقرؤون التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَ (قُولُوا آمنا بِاللَّه وَمَا أنزل إِلَيْنَا» الْآيَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: اہل کتاب (یہود) اپنی کتاب تورات کو عبرانی زبان میں تلاوت کرتے اور پڑھتے تھے۔ اور مسلمانوں کے سامنے اس کا ترجمہ اور تفسیر عربی زبان میں بیان کرتے تھے۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تم اہل کتاب کو سچا ہی جانو (ممکن ہے غلط مطلب سمجھاتے ہوں) اور نہ تم ان کو جھوٹا ہی سمجھو (ہو سکتا ہے کہ صحیح مطلب سمجھا رہے ہوں) تم صرف اتنا ہی کہہ دو کہ «امنا بالله وما انزل الينا» ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو چیز ہم پر نازل کی گئی ہے اس پر بھی ایمان لے آئے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 155]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 7362]

فقہ الحدیث:
➊ اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں جو عبرانی زبان والی تورات کو مانتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ یہود و نصاریٰ دونوں کے پاس تورات اور ان کی مذہبی کتابوں کی صحیح متصل سند موجود نہیں ہے، لہٰذا یہ لوگ اندھیروں میں سرگرداں بھٹک رہے ہیں۔
➋ اہل کتاب کی جو روایت کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف نہ ہو تو اسے بیان کرنا جائز ہے۔
➌ مشکل معاملات جن میں فیصلہ نہ ہو سکے، ان کے بارے میں توقف کرنا ضروری ہے۔
➍ کتاب و سنت کے خلاف رائے پیش نہیں کرنا چاہئیے۔
➎ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر لکھنا جائز ہے، بشرطیکہ کتاب و سنت، اجماع اور سلف صالحین کے فہم کو مدنظر رکھا جائے۔
➏ اہل حق کے مخالفین کی کتابیں پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ پڑھنے والا عالم بالحق ہو اور اس کا مقصود حق کا دفاع اور باطل کا رد ہو۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 155   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7542  
7542. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب کی تصدیق وتکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7542]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس حدیث سے یوں نکلا کہ اگر اہل کتاب سچ بولیں توان کی کتاب کا ترجمہ بھی وہی ہوگا جو اللہ کی طرف سےاترا۔
امام بیہقی نےکہا کہ اللہ کا کلام باختلاف لغات مختلف نہیں ہوتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7542   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7542  
7542. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب کی تصدیق وتکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7542]
حدیث حاشیہ:

اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ان کی مذہبی کتاب تورات عبرانی زبان میں تھی۔
انھوں نے اپنی خواہشات اور مفادات کے پیش نظر اس میں ردوبدل کر دیا تھا۔
ایسے حالات میں ان کے ترجمہ اور تفسیر کا کیسے اعتبار کیا جاتا۔
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے جو اہل اسلام پر تعلیمات قرآن اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی صورت میں اتاری تھیں ان کی موجودگی میں اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے کلام کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تواس ترجمے کو اللہ کا کلام نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ تو مترجم کی کوشش وکاوش اور اس کا فعل ہے اور بندے کا فعل مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
اس سے اشاعرہ کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام جس زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہی رہتا ہے، حالانکہ دلائل کے اعتبار سے یہ موقف محل نظر ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7542