صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
55. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البروج میں) فرمان ”بلکہ وہ عظیم قرآن ہے جو لوح محفوظ میں ہے“۔
{وَالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ}. قَالَ قَتَادَةُ: مَكْتُوبٌ يَسْطُرُونَ يَخُطُّونَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ جُمْلَةِ الْكِتَابِ وَأَصْلِهِ مَا يَلْفِظُ مَا يَتَكَلَّمُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا كُتِبَ عَلَيْهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يُكْتَبُ الْخَيْرُ وَالشَّرُّ يُحَرِّفُونَ يُزِيلُونَ وَلَيْسَ أَحَدٌ يُزِيلُ لَفْظَ كِتَابٍ مِنْ كُتُبِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَكِنَّهُمْ يُحَرِّفُونَهُ يَتَأَوَّلُونَهُ عَلَى غَيْرِ تَأْوِيلِهِ دِرَاسَتُهُمْ تِلَاوَتُهُمْ وَاعِيَةٌ حَافِظَةٌ وَتَعِيَهَا تَحْفَظُهَا، وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ يَعْنِي أَهْلَ مَكَّةَ وَمَنْ بَلَغَ هَذَا الْقُرْآنُ فَهُوَ لَهُ نَذِيرٌ.
‏‏‏‏ اور (سورۃ الطور میں) فرمایا «والطور. وكتاب مسطور» اور طور پہاڑ کی قسم اور کتاب کی قسم جو مسطور ہے۔ قتادہ نے کہا «مسطور» کے معنی لکھی گئی اور اسی سے ہے «يسطرون» یعنی لکھتے ہیں۔ «في أم الكتاب» یعنی مجموعی اصل کتاب میں، یہ جو سورۃ ق میں فرمایا «ما يلفظ من قول» اس کا معنی یہ ہے کہ جو بات وہ منہ سے نکالتا ہے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نیکی اور بدی یہ فرشتہ لکھتا ہے۔ «يحرفون» لفظوں کو اپنے ٹھکانوں سے ہٹا دیتے ہیں کیونکہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی لفظ بالکل نکال ڈالنا یہ کسی سے نہیں ہو سکتا مگر اس میں تحریف کرتے ہیں یعنی ایسے معنی بیان کرتے ہیں جو اس کے اصلی معنی نہیں ہیں۔ «وان كنا عن دراستهم» میں «دراست» سے تلاوت مراد ہے۔ «واعية» جو سورۃ الحاقہ میں ہے یاد رکھنے والا۔ «وتعيها» یعنی یاد رکھے اور یہ جو (سورۃ یونس میں ہے) «وأوحي إلي هذا القرآن لأنذركم به» میں «كم» سے خطاب مکہ والوں کو ہے «ومن بلغ» سے دوسرے تمام جہاں کے لوگ ان سب کو یہ قرآن ڈرانے والا ہے۔
حدیث نمبر: 7553
وقَالَ لِي خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ كِتَابًا عِنْدَهُ غَلَبَتْ، أَوْ قَالَ: سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ".
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا۔ ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا میں نے اپنے والد سلیمان سے سنا، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے ابورافع سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ جب خلقت کا پیدا کرنا ٹھہرا چکا (یا جب خلقت پیدا کر چکا) تو اس نے عرش کے اوپر اپنے پاس ایک کتاب لکھ کر رکھی اس میں یوں ہے میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے یا میرے غصے سے آگے بڑھ چکی ہے۔
  الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7554  
´اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے`
«. . . رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْخَلْقَ، إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي فَهُوَ مَكْتُوبٌ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک تحریر لکھی کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، چنانچہ یہ اس کے پاس عرش کے اوپر لکھا ہوا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7554]

فوائد و مسائل
اللہ تعالیٰ کے متعلق محدثین و سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرَّحْمَـنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى» رحمن عرش پر مستوی ہوا۔ [20-طه:5]
↰ مستوی ہونے کا مفہوم بلند ہونا اور مرتفع ہونا ہے جیسا کہ:
❀ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الله كتب كتابا قبل ان يخلق الخلق إن رحمتي سبقت غضبي فهو مكتوب عنده فوق العرش»
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب لکھی ہے . . . جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے۔ [صحيح بخاري 7554]
↰ لیکن اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے اسی طرح وہ عرش پر مستوی ہے، ہمارے عقلیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے البتہ اس کا علم اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے، اس کی معیت ہر کسی کو حاصل ہے جیسا کہ یہ بات عقائد کی کتب میں واضح طور پر موجود ہے۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 22   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث189  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اپنے ذمہ لکھ لیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 189]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت اور صفت غضب کا ثبوت ہے اور اللہ تعالی کے ہاتھ مبارک کا ذکر ہے۔
ان تمام پر بلا تشبیہ ایمان لانا ضروری ہے۔
اور ہاتھ کا مطلب قدرت لینا بھی درست نہیں کیونکہ اس طرح دو صفات کو ایک صفت کے معنی میں لینے سے دوسری صفت کا انکار ہوتا ہے۔
اللہ کے دو ہاتھوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾  (ص: 75)
 فرمایا:
اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 189   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7553  
7553. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنے پاس۔ عرش کے اوپر ایک کتاب لکھ کر رکھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے یا میرے غصے سے آگے بڑھ چکی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7553]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری  نےاپنی کتاب باب خلق افعال العباد میں کہا کہ قرآن مجید یاد کیا جاتا ہے، لکھا جاتا ہے، زبانوں سے پڑھا جاتاہے۔
یہ قرآن اللہ کا کلام ہے جومخلوق نہیں ہے۔
مگر کاغذ سیاہی اورجلد یہ سب چیزیں مخلوق ہیں۔
مضمون باب میں کتب سابقہ کی تحریف کا ذکر ہےآج کل جو نسخے توراۃ وانجیل کے نام سے دنیا میں مشہور ہیں ان میں تحریف لفظی اورمعنوی ہردو طرح سےموجود ہے۔
اسی لیے اس پراجماع ہےکہ ان کتابوں کا مطالعہ اوراشتغال مضبوط الایمان لوگوں کےلیے جائز ہے جوان کارد کرنے اورجواب دینے کے لیے پڑھیں۔
آخر میں لوح محفوظ کا ذکر ہے۔
لوح محفوظ عرش کے پاس ہے۔
حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ صفات افعال جیسے رحم اورغضب وغیرہ یہ حادث ہیں ورنہ قدیم میں سابقیت اورمسبوقیت نہیں ہوسکتی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7553