صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ -- کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
57. بَابُ قِرَاءَةِ الْفَاجِرِ وَالْمُنَافِقِ، وَأَصْوَاتُهُمْ وَتِلاَوَتُهُمْ لاَ تُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ:
باب: فاسق اور منافق کی تلاوت کا بیان اور اس کا بیان کہ ان کی آواز اور ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی۔
حدیث نمبر: 7561
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ. ح وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" سَأَلَ أُنَاسٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكُهَّانِ؟، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيْسُوا بِشَيْءٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهُمْ يُحَدِّثُونَ بِالشَّيْءِ يَكُونُ حَقًّا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تِلْكَ الْكَلِمَةُ مِنَ الْحَقِّ يَخْطَفُهَا الْجِنِّيُّ، فَيُقَرْقِرُهَا فِي أُذُنِ وَلِيِّهِ كَقَرْقَرَةِ الدَّجَاجَةِ، فَيَخْلِطُونَ فِيهِ أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ كَذْبَةٍ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھ کو یحییٰ بن عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کچھ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ لوگ بعض ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ بیان کیا کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صحیح بات وہ ہے جسے شیطان فرشتوں سے سن کر یاد رکھ لیتا ہے اور پھر اسے مرغی کے کٹ کٹ کرنے کی طرح (کاہنوں) کے کانوں میں ڈال دیتا ہے اور یہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ ملاتے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7561  
7561. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: کچھ لوگوں نے نبی ﷺ سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ لوگ بعض اوقات ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی ﷺ نے (وضاحت کرتے ہوئے) فرمایا: ان کی صحیح بات وہ ہوتی ہے جو شیطان، (فرشتوں سے سن کر) یاد کرلیتا ہے، پھر وہ مرغی کے کٹ کٹ کرنے کی طرح اپنے دوست (کاہن) کے کان میں ڈال دیتا ہے اور وہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ بھی ملا دیتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7561]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ کاہن کبھی شیطان کے ذریعہ سےاللہ کا کلام اڑا لیتا ہے لیکن اس کا بیان کرنا یعنی تلاوت کرنا برا ہے منافق کی تلاوت کی طرح اسی طرح شیطان کا تلاوت کرنا حالانکہ فرشتے جو اس کلام کی تلاوت کرتے ہیں وہ اچھی ہے تو معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن سے مغائر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7561   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7561  
7561. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: کچھ لوگوں نے نبی ﷺ سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ لوگ بعض اوقات ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ نبی ﷺ نے (وضاحت کرتے ہوئے) فرمایا: ان کی صحیح بات وہ ہوتی ہے جو شیطان، (فرشتوں سے سن کر) یاد کرلیتا ہے، پھر وہ مرغی کے کٹ کٹ کرنے کی طرح اپنے دوست (کاہن) کے کان میں ڈال دیتا ہے اور وہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ بھی ملا دیتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7561]
حدیث حاشیہ:

کاہن زمانہ مستقبل کی خبریں دینے کا دعوی کرتے ہیں اور غیب جاننے کے مدعی ہوتے ہیں حدیث میں اس کی نفی مقصود ہے۔
اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ کاہن کبھی شیطان نے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا کلام اڑا لیتا ہے لیکن اس کا بیان کرنا یعنی اسے تلاوت کرنا منافق کی طرح بہت برا ہے۔
اسی طرح شیاطین جب اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر کاہن کے کان میں ڈالتے ہیں تو ان کا کردار انتہائی گھناؤنا ہوتا ہے جبکہ فرشتوں کی تلاوت بہت اچھی اور قابل تعریف ہے اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت بندوں کا فعل ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور تلاوت قرآن سے مختلف ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ منافق کی تلاوت بھی مومن کی تلاوت کی طرح ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے دونوں میں بہت فرق ہے حالانکہ متلو یعنی قرآن کریم تو ایک ہے۔
اگر تلاوت اور متلو، یعنی قرآن پاک ایک ہوتا تو اس قدر فرق نہ ہوتا۔
اسی طرح کاہن کا معاملہ ہے کہ شیاطین فرشتے سے اللہ تعالیٰ کا کلام چھین کر اسے سناتے ہیں اب فرشتے کے پڑھنے میں بہت فرق ہے اس اعتبار سے بھی تلاوت اور قرآن دو مختلف حقیقتیں ہیں۔
(فتح الباري: 668/13، 669)
ہم اس بات کو ذرا آگے بڑھاتے ہیں کہ مذکورہ فرق اس امر کی دلیل ہے کہ تلاوت کرنا ان کا ایک عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7561