صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
7. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الْمُنَاوَلَةِ وَكِتَابِ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْعِلْمِ إِلَى الْبُلْدَانِ:
باب: مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر (دوسرے) شہروں کو بھیجنا۔
حدیث نمبر: 65
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا، فَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ: مَنْ قَالَ نَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنَسٌ".
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، ان سے عبداللہ نے، انہیں شعبہ نے قتادہ سے خبر دی، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے (یعنی بے مہر کے خط کو مستند نہیں سمجھتے) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ جس میں «محمد رسول الله‏» کندہ تھا۔ گویا میں (آج بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے قتادہ سے پوچھا کہ یہ کس نے کہا (کہ) اس پر «محمد رسول الله‏» کندہ تھا؟ انہوں نے جواب دیا، انس رضی اللہ عنہ نے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 65  
´مناولہ کا بیان`
«. . . قَالَ:" كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، فَقِيلَ لَهُ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 65]

تشریح:
مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کر دی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔ اگر اپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں «حدثني» یا «اخبرني فلاں» کہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث نمبر 64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا، چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔ سو جب وہ مرنے لگا تو اس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔ وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مر گیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھا گیا اور وہ بھی مر گیا۔ اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔ اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔

مناولہ کے ساتھ باب میں مکاتبت کا ذکر ہے جس سے مراد یہ کہ استاد اپنے ہاتھ سے خط لکھے یا کسی اور سے لکھوا کر شاگرد کے پاس بھیجے، شاگرد اس صورت میں بھی اس کو اپنے استاد سے روایت کر سکتا ہے۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہر دو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیر فقیہ اور زود رنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔ «نعوذ بالله من شرورانفسنا»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 65   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 65  
65. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک خط لکھا، یا لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ تو آپ سے کہا گیا: وہ لوگ بغیر مہر لگا خط نہیں پڑھتے۔ تب آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ (اس کی خوب صورتی میری نظر میں کھب گئی) گویا میں اب بھی آپ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں نے قتادہ سے پوچھا: اس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ تھے، یہ الفاظ کس کے بیان کردہ ہیں؟ انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ کے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:65]
حدیث حاشیہ:
مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کردی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔
اگراپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں حدثنی یا أخبرنی فلان کہنا جائز نہیں ہے۔
حدیث نمبر64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا، چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔
سوجب وہ مرنے لگا تواس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔
وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مرگیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھا گیا اور وہ بھی مرگیا۔
اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا۔
ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔
اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔
اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہردو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیرفقیہ اور زودرنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔
نعوذ باللہ من شرور أنفسنا
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 65   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3641  
´انگوٹھی کے نقش کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ایک حبشی نگینہ تھا، اور اس میں «محمد رسول الله» کا نقش تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3641]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح بخاری کی روایت میں ہے:
نبی ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی اسی میں سے تھا۔ (صحيح البخاري، اللباس، باب فصّ الخاتم، حديث: 5869)
حافظ ابن حجر  نے حبشی نگینہ کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس کا ڈیزائن یا نقش حبشى انداز کا تھا۔
اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ وہ حبشہ کے علاقے کا پتھر یا عقیق تھا تو ممکن ہے کہ دو انگوٹھیاں ہوں۔
ایک چاندی کے نگینے والی اور ایک پتھر کے نگینے والی۔
واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 10 /396)

(2)
مرد کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔

(3)
انگوٹھی میں کوئی لفظ یا حرف کندہ کرانا جائز ہے۔

(4)
خلیفہ قاضی یا دوسرے افسران کی مہر کی نقل تیار کرنا منع ہے کیونکہ اس سے جعل سازی اور فریب کا دروازہ کھلتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3641   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1739  
´چاندی کی انگوٹھی کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ (عقیق) حبشہ کا بنا ہوا تھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1739]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آنے والی انس کی روایت جس میں ذکر ہے کہ نگینہ بھی چاندی کا تھا،
اور باب کی اس روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے،
کیوں کہ احتمال ہے کہ آپ کے پاس دوقسم کی انگوٹھیا ں تھیں،
یا یہ کہاجائے کہ نگینہ چاندی کا تھا،
حبشہ کی جانب نسبت کی وجہ یہ ہے کہ حبشی نقش ونگار یا طرز پر بناہواتھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1739   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4214  
´انگوٹھی بنانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شاہان عجم کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ ایسے خطوط کو جو بغیر مہر کے ہوں نہیں پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں «محمد رسول الله» کندہ کرایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4214]
فوائد ومسائل:
رسول اللہﷺ کی انگوٹھی محض زینت کے لیئے نہیں تھی، بلکہ بطور مہر استعمال ہوتی تھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4214   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:65  
65. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک خط لکھا، یا لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ تو آپ سے کہا گیا: وہ لوگ بغیر مہر لگا خط نہیں پڑھتے۔ تب آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ (اس کی خوب صورتی میری نظر میں کھب گئی) گویا میں اب بھی آپ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں نے قتادہ سے پوچھا: اس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کندہ تھے، یہ الفاظ کس کے بیان کردہ ہیں؟ انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ کے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:65]
حدیث حاشیہ:

صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اہل عجم کو مکتوب لکھنے کا ارادہ فرمایا (حدیث: 5872)
، دوسری روایت کے مطابق اہل روم کو خط لکھنے کا پروگرام بنایا(حدیث: 5875)
۔
بہرحال جب آپ نے سلاطین عالم کے نام دعوتی خطوط بھیجنے کاارادہ فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ جس خط پر مہر نہ ہو، یہ لوگ اسے ہاتھ نہیں لگاتے۔
چونکہ مقصد ان لوگوں تک دعوت اسلام پہنچانا تھا، اس لیے آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ تنبیہ کی ہے کہ مکاتبہ وہ معتبر ہوگا جس پر مہرہو۔
یہ بھی اعتماد کے لیے ہے۔
اگرمکتوب الیہ تحریر پہچانتا ہو اور اسے اعتماد ہوتو غیر مختوم تحریر پر عمل بھی درست ہے۔
اگر مکتوب الیہ تحریر نہیں پہچانتا اور اسے اعتماد بھی نہیں تو صرف مہر کا اعتبار نہیں کیا جائےگا کیونکہ مہر بھی جعلی ہوسکتی ہے۔
اس حدیث سے اتنا تو معلوم ہوا کہ علم کے سلسلے میں مکاتبت کا اعتبار ہے لیکن شرط یہی ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک انتقال میں کوئی کمزوری نہ آئے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ مکاتبت کی صورت بھی مشافہت(رُو دررُو)
کی طرح لائق استناد ہے۔

آپ نے چاندی کی انگوٹھی اس لیے بنوائی تھی تاکہ آپ کے خطوط کا اعتبار کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس رکھا، بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی حتیٰ کہ بئراریس میں گرگئی اور تلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکی۔
انگوٹھی کے متعلق مفصل گفتگو کتاب اللباس میں کی جائےگی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث سے صرف چار کا ذکر کیا ہے۔
(1)
۔
سماع من الشیخ۔
(2)
۔
قراءۃ علی الشیخ۔
(3)
۔
مناولہ۔
(4)
۔
مکاتبہ۔
باقی اقسام:
وجادہ، اعلام، وصیہ، جن میں اجازت نہیں ہوتی، کا ذکر نہیں کیا۔
کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 205/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 65