صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
95. بَابُ وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ:
باب: امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں۔
حدیث نمبر: 755
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:" شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا أُصَلِّي صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَأَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الْأُخْرَيَيْنِ، قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إِلَى الْكُوفَةِ فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الْكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ: أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ وَلَا يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلَاثٍ، اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً فَأَطِلْ عُمْرَهُ وَأَطِلْ فَقْرَهُ وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالملک بن عمیر نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، کہا کہ اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قرآت) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 755  
´امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا`
«. . . شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مغزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 755]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے دقیق لفظوں سے یہ اشارہ فرمایا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا امام، مقتدی، حضر، سفر چاہے جہری نماز ہو یا سری نماز ہو سب میں پڑھنا واجب ہے دلیل کے طور پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی جو طویل حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ تھے:
➊ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنی نماز میں کوتاہی نہیں کرتا میں ان کو اسی طرح نماز پڑھاتا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے۔
➋ عشاء کی نماز میں پہلی دو رکعتوں کو لمبا کرتا اور بعد کی دو رکعتوں کو ہلکا کرتا۔
یہاں سے باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء وغیرہ کی نماز میں سورة الفاتحہ پڑھتے اور صحابی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ میں وہی کرتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے یعنی وہ بھی سورة الفاتحہ پڑھتے اور اس کو بھی یاد رکھا جائے کہ عشاء کی نماز جہری ہے جب اس میں سورة الفاتحہ پڑھنا ثابت ہوا تو سری نماز میں سورة الفاتحہ پڑھنا بالاولیٰ ثابت ہو گا، اس کے علاوہ سورة الفاتحہ پڑھنے کے حکم کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ مطلق لے رہے ہیں کہ ہر نماز میں چاہے وہ مقتدی ہو یا امام لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

فائدہ:
➊ مذکورہ بالا حدیث سے امام کا چاروں رکعتوں میں قرأت کرنے کا ثبوت موجود ہے۔
➋ خصوصاً سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا چاہے وہ نماز جہری ہو یا سری
➌ کوفہ والوں کی شرارتیں اور بے ایمانی کے معاملات مخفی نہیں۔ صحابی رسول سیدنا سعید رضی اللہ عنہ پر انہوں نے الزامات لگائے جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
➍ سعد رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دی تھی:
«اللهم استجب لسعد» [رواه الطبراني بطريق الشعبي]
اے اللہ! سعد جب دعا کرے تو اس کی دعا قبول فرما۔
➎ حضر اور سفر میں قرأت کا کرنا مشروع ہے۔
➏ اگر کسی سردار کی خلیفہ کے پاس شکایت آئے تو اسے معزول کرنا جائز ہے۔
➐ اس حدیث سے تحقیق کرنا بھی ثابت ہوا کیونکہ سعد رضی اللہ عنہ جہاں کے امیر تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں کو بھیج کر تحقیق کروائی۔
➑ ظالم پر بددعا کرنا بھی جائز ہوا جب کہ اس سے دین میں نقصان ہو۔
اسی باب کے ذیل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور حدیث کا ذکر فرمایا:دیکھئیے: حدیث صحیح بخاری [757]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 191   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 803  
´بعد کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے آپ کی ہر چیز میں شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کے بارے میں بھی، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتا ہوں اور پچھلی دونوں رکعتیں مختصر پڑھتا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے طریقہ نماز کی) پیروی کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 803]
803۔ اردو حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں قرأت واجب ہے۔ دیکھئے: «باب وجوب القرأت الامام والماموم فى الصلواة كلها . . . الخ» [سنن ابی داود حديث 755]
اس سے پچھلی دو رکعتو ں میں پہلی دو رکعتوں کے مقابلے میں تخفیف کا اثبات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 803   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 755  
755. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر ؓ سے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت کی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں معزول کر کے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو ان (کوفیوں) پر تعینات کر دیا۔ الغرض ان لوگوں نے حضرت سعد ؓ کی بہت شکایات کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انہیں بلا بھیجا اور کہا: اے ابواسحاق! یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاتا تھا۔ میں نے اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کو روا نہیں رکھا۔ میں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! تمہاری نسبت ہمارا گمان یہی ہے۔ پھر آپ نے ایک شخص یا چند اشخاص کو حضرت سعد ؓ کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا (تاکہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:755]
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد ؓ نے نماز کی جوتفصیل بیان کی اوراس کونبی ﷺ کی طرف منسوب کیااسی سے باب کے جملہ مقاصد ثابت ہوگئے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، یہ مستجاب الدعوات تھے، آنحضرت ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی۔
عہدفاروقی میں یہ کوفہ کے گورنر تھے۔
مگرکوفہ والوں کی بے وفائی مشہور ہے۔
انھوں نے حضرت سعد ؓ کے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں۔
آخرحضرت عمرؓ نے وہاں کے حالات کا اندازہ فرماکر حضرت عمار ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بیت المال کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔
حضرت سعدرؓ کی فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ جنگ احد میں انھوں نے آنحضرت ﷺ کے بچاؤ کے لیے بے نظیر جرات کا ثبوت دیا۔
جس سے خوش ہوکر آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اے سعد! تیرچلا، تجھ پر میرے ماںباپ فداہوں۔
یہ فضیلت کسی اورصحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔
جنگ ایران میں انھوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے جن سے اسلامی تاریخ بھرپورہے۔
سارے ایران پر اسلامی پرچم لہرایا۔
رستم ثانی کو میدان کارزار میں بڑی آسانی سے مارلیا۔
جواکیلا ہزار آدمیوں کے مقابلہ پربھاری سمجھا جاتا تھا۔
حضرت سعد ؓ نے اسامہ بن قتادہ کوفی کے حق میں بددعا کی جس نے آپ پرالزامات لگائے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سعد ؓ کی دعا قبول کی اور وہ نتیجہ ہوا جس کا یہاں ذکر موجود ہے۔
معلوم ہوا کہ کسی پرناحق کوئی الزام لگانابہت بڑا گناہ ہے۔
ایسی حالت میں مظلوم کی بددعا سے ڈرنا ایمان کی خاصیت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 755   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:755  
755. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اہل کوفہ نے حضرت عمر ؓ سے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی شکایت کی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں معزول کر کے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو ان (کوفیوں) پر تعینات کر دیا۔ الغرض ان لوگوں نے حضرت سعد ؓ کی بہت شکایات کیں۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے انہیں بلا بھیجا اور کہا: اے ابواسحاق! یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی طرح نہیں پڑھتے ہو۔ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھاتا تھا۔ میں نے اس میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کو روا نہیں رکھا۔ میں نماز عشاء پڑھاتا تو پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! تمہاری نسبت ہمارا گمان یہی ہے۔ پھر آپ نے ایک شخص یا چند اشخاص کو حضرت سعد ؓ کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا (تاکہ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:755]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
حضرت عمر ؓ نے انھیں چودہ ہجری میں ایران فتح کرنے پر مامور کیا، عراق پر بھی ایرانیوں کی حکومت تھی، عراق فتح ہونے کے بعد سترہ ہجری میں وہاں کوفہ اور بصرہ نئے شہر آباد کرنے کا منصوبہ زیر بحث آیا، چنانچہ ان کی نگرانی میں یہ دونوں شہر آباد ہوئے۔
حضرت سعد ؓ اکیس ہجری تک وہاں کے گورنر رہے، اسی ضمن میں اہل کوفہ کے چند شرپسندوں نے انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کے خلاف جھوٹی شکایات کا پلندہ تیار کیا۔
شکایات کرنے والوں میں قبیلۂ بنو اسد کے جراح بن سنان، قبیصہ اور اربد، نیز ان کے علاوہ ایک اور شخص اشعت بن قیس پیش پیش تھے۔
حضرت عمر ؓ نے انھیں معزول کرکے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو بیت المال کی نگرانی اور حضرت عثمان بن حنیف ؓ کو مفتوحہ علاقوں کی پیمائش کرنے پر مامور فرمایا۔
روایات میں وضاحت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ نے تفتیش کی تو تمام شکایات بے سروپا ثابت ہوئیں۔
آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت سعد ؓ کو ان کی بے بسی، عاجزی یا خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا۔
حضرت سعد نے اس حدیث میں نماز کے متعلق جو تفصیل بیان کی ہے، اسے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا۔
اس سے عنوان بالا کے جملہ مقاصد ثابت ہوتے ہیں، چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حدیث سعد کو مذکورہ عنوان کے تحت بیان کیا ہے کیونکہ اس میں عشاء کی پہلی دو رکعات کو لمبا اور آخری دو رکعات کو ہلکا کرنے کا بیان ہے۔
اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ نماز کی کسی رکعت میں قراءت ترک نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی نماز جیسی نماز پڑھاتا ہوں۔
جب اس وضاحت کو رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کے ساتھ ملایا جائے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے تو اس سے نماز میں قراءت کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔
چونکہ حضرت سعد امام تھے، اس لیے عنوان کے ایک جز کے ساتھ مطابقت ہو گئی۔
عنوان کے دیگر اجزاء دوسری احادیث سے ثابت ہوتے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔
واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد کے ہمراہ حقیقت حال کا جائزہ لینے کے لیے حضرت محمد بن مسلمہ اور عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔
(فتح الباري: 308/2۔
310)
(2)
امام بخاری ؒ کا وجوب قراءت فاتحہ کے ثبوت میں، حدیث سعد ؓ کا انتخاب کرنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے وجدان کے مطابق یہ آپ کی دور اندیش اور بالغ نظری کا ایک بین اور واضح ثبوت ہے کیونکہ جس طرح سفہائے عراق نے حضرت سعد کی نماز کے خلاف طوفان بدتمیزی کھڑا کیا، اس طرح فقہائے عراق نے نماز کی قراءت کو تختۂ مشق بنایا ہے۔
قبیلۂ بنو اسد کے چند اوباش اور شرپسند لوگوں کو مستجاب الدعوات اور صحابئ جلیل حضرت سعد ؓ کی نماز کے متعلق یہی اعتراض تھا کہ یہ اپنی نماز کی تمام رکعات میں مساویانہ قراءت کیوں نہیں کرتے، اس کے برعکس ان کا پہلی دو رکعات کو طویل کرنا چہ معنی دارد؟ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ان جہلاء کے اعتراض کی وضاحت کی ہے۔
(فتح الباري: 309/2)
بلکہ اس جہلانہ اعتراض کے پیش نظر حضرت سعد ؓ نے ان کے متعلق بایں الفاظ تبصرہ فرمایا کہ گنوار مجھے نماز سکھانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1019 (453)
فقہائے عراق بھی اسی قراءت کے متعلق تضادات کا شکار ہیں، چنانچہ ان کے ہاں مطلق قراءت فرض ہے، قراءت فاتحہ واجب اور قراءت فاتحہ خلف الامام کے متعلق کوئی نرم گوشہ نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ قراءت فاتحہ امام اور منفرد کے لیے پہلی دورکعات میں واجب ہے۔
اگر ان میں بھی سہوا رہ جائے تو سجدۂ سہو سے کام چل جائے گا، ان رکعات کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ واجب کے ترک کر دینے کی تلافی سجدۂ سہو ہوسکتی ہے۔
دوسری طرف ان کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر دوآیات باہم متعارض ہوں تو وہ محل استدلال سے گرجاتی ہیں، پھر اس قاعدے کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ ﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ﴾ قرآن میں سے جو تمھیں آسان ہو،اسے (نماز میں)
پڑھو۔
(المزمل: 20: 73)
یہ آیت ایک دوسری آیت سے متعارض ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرتے ہوئے اسے بغور سنو۔
(الاعراف204: 7)
ان دونوں آیات کا تعلق نماز سے ہے اور دونوں میں تعارض ہے،لہٰذا دونوں ساقط ہیں اور ان میں سے کسی کو بطور دلیل نہیں پیش کیا جاسکتا۔
(نورالأنوار،طبع مکتبہ رحمانیہ،لاھور،ص: 194،193.(بحث وقوع التعارض بين الحجج) (738/277)
صفحہ نمبر)

واضح رہے کہ فقہائے عراق نے مطلق قراءت کی فرضیت کے لیے سورۂ مزمل کی مذکورہ بالا آیت کو بطور دلیل پیش کیا اور فاتحہ خلف الامام سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے سورۂ اعراف کی مذکورہ آیت کو بطور ڈھال استعمال کیا، دوسری طرف ان دونوں آیات کو محل استدلال سے ساقط کر دکھایا۔
واضح رہے کہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق اس میں کوئی اختلاف یا آیات میں باہمی تعارض نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾ اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو لوگ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔
(النسآء82: 4)
سرسری نظر سے دیکھنے سے جو اختلافات نظر آتے ہیں اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کریم کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 755