صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
4. باب بَيَانِ الإِيمَانِ الَّذِي يُدْخَلُ بِهِ الْجَنَّةُ وَأَنَّ مَنْ تَمَسَّكَ بِمَا أُمِرَ بِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ:
باب: بیان اس ایمان کا جس سے آدمی جنت میں جائے گا اور بیان اس بات کا کہ حکم بجا لانے والا جنت میں جائے گا۔
حدیث نمبر: 107
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ، إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، قَالَ: " تَعْبُدُ اللَّهَ، لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ "، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا شَيْئًا أَبَدًا، وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ نے فرمایا: تم اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو جو تم پر لکھ دی گئی ہے، فرض زکاۃ ادا کرو او ررمضان کے روزے رکھو۔ وہ کہنے لکا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نہ کبھی اس پر کسی چیز کا اضافہ کروں گا اور نہ اس میں گمی کروں گا۔ جب وہ واپس جانے لگا تو نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ ایک جنتی آدمی دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تم اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو جو تم پر لکھ دی گئی ہے، فرض زکاۃ ادا کرو او ررمضان کے روزے رکھو۔ وہ کہنے لگا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نہ کبھی اس پر کسی چیز کا اضافہ کروں گا اور نہ اس میں گمی کروں گا۔ جب وہ واپس جانے لگا تو نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ ایک جنتی آدمی دیکھے تو وہ اسے دیکھ لے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الزكاة برقم (1397) انظر ((التحفة)) برقم (4930)» ‏‏‏‏
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 14  
´ایک اعرابی کے سوال جواب`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَى أَعْرَابِيٌّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ. قَالَ: «تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ - [12] - وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ» . قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا شَيْئًا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ. فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجنَّة فَلْينْظر إِلَى هَذَا» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی (یعنی گاؤں کا رہنے والا گنوار) آیا اور اس نے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ جب میں اسے کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ کو ایک سمجھ کر اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور فرض نماز پڑھ لیا کرو اور فریضہ زکوٰۃ ادا کیا کرو اور رمضان کا روزہ رکھا کرو (ان کو ہمیشہ کرتے رہو گے تو جنت میں داخل ہو گے) یہ سن کر اس گنوار نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ و قبضہ میں میری جان ہے، نہ میں اس سے زیادہ کروں گا اور نہ اس سے کم کروں گا، جب وہ پشت پھیر کر چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی کو اس بات سے خوشی ہو کہ کسی جنتی آدمی کو دیکھے تو اس آدمی کو دیکھ لے . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 14]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 1397]،
[صحيح مسلم؟]

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ارکان اسلام ادا کرنے والا شخص (اگر نواقص اسلام کا ارتکاب نہ کرے تو) ضرور جنت میں داخل ہو گا۔ چاہے ابتدا سے ہی اس کے سارے گناہ معاف کر کے اسے جنت میں داخل کر دیا جائے یا اسے گناہوں کی سزا دے کر آخر کار جنت میں داخل کیا جائے۔ کافر و مشرک اگر توبہ کے بغیر مر گیا تو ابدی جہنمی ہے، جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
➋ حدیث میں مذکور اعرابی کے نام میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں سعد ہے اور بعض عبداللہ بن اخرم کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تحقیق میں اس سے مراد لقیط بن عامر یا ابن المنفق ہے۔ دیکھئے: [التوضيح لمبهمات الجامع التصحيح لابن الجمعي قلمي ص82]
اعرابی کے نام میں اختلاف چنداں مضر نہیں ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ ضرور بالضرور اس کا نام معلوم کیا جائے۔
➌ اللہ کی عبادت سے مراد اس پر ایمان، مکمل اطاعت اور شرک و کفر سے کلی اجتناب ہے۔
➍ اس حدیث میں حج کا ذکر نہ ہونے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس وقت حج فرض نہیں ہوا تھا۔
➎ احادیث سابقہ کی طرح یہ حدیث بھی مرجیہ کا زبردست رد ہے، جو اعمال کو ایمان سے خارج سمجھتے ہیں۔
➏ ایک روایت میں ایک چیز کا ذکر ہو اور دوسری میں ذکر نہ ہو تو اس حالت میں عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔
➐ بعض لوگ اس حدیث سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ سنتیں اور نوافل ضروری نہیں ہیں۔ سیدنا سعید بن المسیب (تابعی) فرماتے ہیں:
«أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس عليك وضحى وليس عليك وصلى الضحى وليس عليك وصلى قبل الظهر وليس عليك»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھا ہے اور یہ تجھ پر لازم نہیں ہے، آپ نے قربانی کی اور یہ تجھ پر واجب نہیں ہے، آپ نے چاشت کی نماز پڑھی یہ تجھ پر ضروری نہیں ہے، آپ نے ظہر سے پہلے نماز پڑھی اور یہ تجھ پر لازم نہیں ہے۔ [مسند على بن الجعد: 945 وسنده صحيح]
تاہم بہتر اور افضل یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا جائے اور تمام سنن ثابتہ کو اپنی زندگی میں اپنایا جائے۔ قیامت کے دن فرائض کی کمی سنن و نوافل سے پوری کی جائے گی اور صحیح احادیث میں نوافل و سنت ادا کرنے کی ترغیب اور فضیلت بھی بہت زیادہ موجود ہے، لہٰذا انہیں بلاوجہ یا معمولی سمجھتے ہوئے ہمیشہ چھوڑنا ایک مذموم حرکت ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے سے ہی انسان اپنے رب کے فضل سے جنت کا حق دار بن سکتا ہے۔
➒ مبشرین بالجنة کا عدد دس میں محصور نہیں ہے، بلکہ قرآن و حدیث سے جن کا جنتی ہونا ثابت ہے وہ جنتی ہیں۔
➓ اللہ پر ایمان اور عقیدہ توحید کے بعد ہی اعمال صالحہ فائدہ دے سکتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 14   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 107  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
دُلَّني:
میری رہنمائی کیجئے،
مجھے بتلائیے۔
(2)
الْمَكْتوبة:
لکھی گئی،
یعنی فرض و لازم ٹھہرائی گئی۔
(3)
المَفْرُوضَة:
فرض اور واجب قرار دی گئی۔
(4)
سَرَّ:
مسرت اور خوشی کا باعث بنا۔
فوائد ومسائل:
(لا ازید ولا انقص)
عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جو کلام کے اندر حسن اور زور وتاکید پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میں اعمال کی تعمیل میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمی نہیں کروں گا،
یہ مقصد نہیں ہوتا کہ میں اس سے زائد عمل نہیں کروں گا۔
جب کہ ہم دوکاندار سے سودا سلف خریدتے وقت کہہ دیتے ہیں،
اس میں کمی،
بیشی ہو سکتی ہے،
بیشی کا لفظ محض حسن اور زور کلام میں اضافہ کے لیے بڑھا دیا جاتا ہے،
ہمارا مطلوب صرف کمی ہوتا ہے نہ ک بیشی،
اس کے لیے تو وہ دوکاندار فورا تیار ہوگا،
اسی محاورہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ (الأعراف: 34)
جس وقت ان کا وقت مقررہ آجائے گا،
اس وقت نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔
جب وقت مقررہ آجائے تو اس میں تاخیر کا امکان تو موجود ہے،
مگر تقدیم تو عقلا ممکن ہی نہیں۔
یہاں مقصود صرف تاخیر ہی ہے لیکن کلام کے انداز وتاکید اور تحسین کےلیے تاخیر کے ساتھ اس کے مقابل،
تقدیم کو بھی لایا گیا ہے۔
اسی طرح،
اس حدیث میں مقصد لا انقص ہے لیکن کلام کی تحسین وتاکید کےلیے اس کے مقابل لا ازید کہہ دیا گیا ہے وگرنہ نفل تو مقصود ومطلوب ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 107