صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
5. باب بَيَانِ أَرْكَانِ الْإِسْلَامِ وَدَعَائِمِهِ الْعِظَامِ
باب: اسلام کے بڑے بڑے ارکان اور ستونوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 114
وحَدَّثَنِي ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ بْنَ خَالِدٍ ، يُحَدِّثُ طَاوُسًا، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَر : أَلَا تَغْزُو؟ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الإِسْلَامَ بُنِيَ عَلَى خَمْسٍ، شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَصِيَامِ رَمَضَانَ، وَحَجِّ الْبَيْتِ ".
عکرمہ بن خالد، طاؤس کو حدیث سنا رہے تھے کہ ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ جہاد میں حصہ نہیں لیتے؟ انہوں نےجواب دیا: بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے، اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: (اس حقیقت کی) گواہی دینے پر کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، نماز قائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے اور بیت اللہ کاحج کرنے پر۔
ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنهما سے پوچھا: آپ جہاد میں حصہ کیوں نہیں لیتے؟ تو انھوں نے جواب دیا: بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ فر رہے تھے: اسلام کی عمارت پانچ چیزوں پر قائم ہے، اللہ تعالیٰ کی الوہیت کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحـه)) فى الايمان، باب: دعا وكم ايمانكم برقم (8) والترمذي فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء بنى الاسلام على خمس برقم (2609) انظر ((التحفة)) برقم (7344)» ‏‏‏‏
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 4  
´اسلام اور ایمان اصلاً ایک ہی چیز کے دو نام ہیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ " . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر رکھی گئی ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ ہی سچا معبود ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں ہے اور یقیناً محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 4]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 8]،
[صحيح مسلم 16]

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام اور ایمان اصلاً ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اسلام اور ایمان کے درمیان کچھ فرق اس طرح سے بھی کیا جاتا ہے کہ اسلام آدمی کی ظاہری کیفیت اور ایمان باطنی (اعتقادی) کیفیت پر دلالت کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَـكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ» اعرابیوں نے کہا: ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے! تم ایمان نہیں لائے، لیکن تم کہو: ہم اسلام لائے، اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ [49-الحجرات:14]
➋ تارک الصلوۃ کی تکفیر میں سلف صالحین میں اختلاف ہے، جمہور اس کی تکفیر کے قائل ہیں، نصوص شرعیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح تحقیق یہ ہے کہ جو شخص مطلقاً نماز ترک کر دے، بالکل نہ پڑھے وہ کافر ہے، اور جو شخص کبھی پڑھے اور کبھی نہ پڑھے تو ایسا شخص کافر نہیں ہے مگر پکا مجرم اور فاسق ہے، اس کا فعل کفریہ ہے، خلفیۃ المسلمین اس پر تعزیر فافذ کر سکتا ہے، اس پر اجماع ہے کہ نماز، زکوٰۃ، رمضان کے روزے اور حج کا انکار کرنے والا کافر اور ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 4   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 114  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کرنے والا حکیم نامی انسان تھا۔

جہاد اسلام کے ارکان خمسہ کی طرح بالذات مقصود اور مطلوب نہیں بلکہ اسلام کے باقی امور کی طرح کسی عارضی (ضرورت وحاجت)
،
خاص حالات اور خاص موقعوں پر فرض ہوتا ہے،
اس لیے جہاد ہر وقت،
ہر حالت میں،
ہر مرد اور ہر عورت پر فرض نہیں اس لیے جہاد کو ارکان اسلام میں شمار نہیں کیا گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 114