صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
10. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا 
باب: موحد قطعی جنتی ہے۔
حدیث نمبر: 138
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الأَشْجَعِيُّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ، قَالَ: فَنَفِدَتْ أَزْوَادُ الْقَوْمِ، قَالَ: حَتَّى هَمَّ بِنَحْرِ بَعْضِ حَمَائِلِهِمْ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ جَمَعْتَ مَا بَقِيَ مِنْ أَزْوَادِ الْقَوْمِ، فَدَعَوْتَ اللَّهَ عَلَيْهَا، قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَجَاءَ ذُو الْبُرِّ بِبُرِّهِ، وَذُو التَّمْرِ بِتَمْرِهِ، قَالَ: وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَذُو النَّوَاةِ بِنَوَاهُ، قُلْتُ: وَمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ بِالنَّوَى؟ قَالَ: كَانُوا يَمُصُّونَهُ وَيَشْرَبُونَ عَلَيْهِ الْمَاءَ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهَا حَتَّى مَلَأَ الْقَوْمُ أَزْوِدَتَهُمْ، قَالَ: فَقَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: " أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، لَا يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ فِيهِمَا، إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ ".
طلحہ بن مصرف نے ابو صالح سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ورایت کی، کہا: ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں کے زاد راہ ختم ہو گئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کچھ سواریاں (اونٹوں) کو ذبح کرنے کا ارادہ فرما لیا اس پرعمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! لوگوں کا جو زاد راہ بچ گیا ہے اگر آپ اسے جمع فرما لیں اور اللہ تعالیٰ سے اس پر برکت کی دعا فرمائیں (تو بہتر ہو گا)، کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ گندم والا اپنی گندم لایا اور کھجور والا اپنی کھجور لایا۔ طلحہ بن مصرف نے کہا: مجاہد نے کہا: جس کے پاس گٹھلیاں تھیں، وہ گٹھلیاں ہی لے آیا۔ میں نے (مجاہدسے) پوچھا: گٹھلیاں کا لوگ کیا کرتے تھے؟ کہا: ان کو چوس کر پانی پی لیتے تھے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس (تھوڑے سے زاد راہ) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو پھر یہاں تک ہوا کہ لوگوں نے زاد راہ کے اپنے لیے برتن بھر لیے (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ بھی ان دونوں (شہادتوں) کے ساتھ، ان میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا، وہ (ضرور) جنت میں داخل ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ لوگوں کا زادِ راہ ختم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بعض سواریوں (اونٹوں) کو ذبح کردیا جائے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسولؐ! کاش آپ لوگوں کا بچا کھچا توشہ جمع فرما لیں اور اس پر اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا۔ گندم والا اپنی گندم لایا اور کھجور والا کھجو۔ مجاہدؒ کہتے ہیں: جس کے پاس گٹھلیاں تھیں وہ گٹھلیاں لے آیا۔ راوی نے پوچھا (مجاہدؒ سے): کہ گٹھلیوں کا کیا کرتے تھے؟ جواب ملا: ان کو چوس کر پانی پی لیتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جمع شدہ توشہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دعا فرمائی تو لوگوں نے اپنے اپنے توشہ کے برتنوں کو بھر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے جو بندہ بھی اللہ تعالیٰ کو ان دونوں باتوں میں (توحیدو رسالت) بلا شک و شبہ ملے گا وہ جنّت میں داخل ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (12806)» ‏‏‏‏
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 675  
´اذان کا جواب دینے کے ثواب کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اذان دینے لگے، جب وہ خاموش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے یقین کے ساتھ اس طرح کہا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 675]
675 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث کے معنی بظاہر وہی ہے جو مؤلف رحمہ اللہ نے مراد لیے ہیں کہ جو شخص اذان کا جواب دے وہ جنت میں جائے گا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 675   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1444  
´جان نکلنے کے وقت میت کو «لا الہ الا اللہ» کی تلقین کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے مردوں کو «لا إله إلا الله» کی تلقین کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1444]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اس حدیث میں مرنے والے سے مراد قریب الوفات شخص ہے۔

(2)
تلقین سے عام طور پر علماء نے یہ مراد لیا ہے۔
کہ قریب الوفات شخص کے پاس (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)
پڑھا جائے۔
تاکہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔
علامہ محمد فواد عبد الباقی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کے حاشہ میں یہی فرمایا ہے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، الجنائز، باب تلقین الموتیٰ لا الٰہ الا اللہ)
نواب وحید الزمان خان نے سنن ابن ماجہ کے حاشہ میں اس مقام پر فرمایا مستحب ہے کہ میت یعنی جومر رہا ہو۔
اس کو نرمی سے یہ کلمہ یاد دلائیں۔
اور زیادہ اصرار نہ کریں۔
ایسا نہ ہوکہ انکار کر بیٹھے۔
البتہ علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس سے مختلف ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ تلقین سے مراد کلمہ توحید پڑھ کر صرف سنانا ہی نہیں بلکہ اس سے کہا جائے وہ بھی پڑھے۔
اس کی دلیل میں انھوں نے یہ حدیث پیش کی ہے۔
جس کے الفاظ یہ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کی عیادت کوتشریف لے گئے تو فرمایا ماموں جان! (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)
کہیے۔
اس نے کہا میں ماموں ہوں یا چچا؟ آپ نے فرمایا بلکہ ماموں اس نے کہا تو (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ)
کہنا میرے لئے بہتر ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا ہاں (مسند احمد: 152/3)

(3)
اس حدیث سے دفن کے بعد تلقین مراد لینا درست نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ نے ایسے نہیں کیا اور نہ کسی صحابی سے صحیح سند سے یہ عمل مروی ہے۔
لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
البتہ دفن کے بعد میت کے حق میں استقامت کی دعا کرنامسنون ہے۔ (سنن أبی داؤد، الجنائز، باب الإستغفار عند القبر للمیت فی وقت الإنصراف، حدیث: 3231)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1444