صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
14. باب بَيَانِ تَفَاضُلِ الإِسْلاَمِ وَأَيِّ أُمُورِهِ أَفْضَلُ:
باب: خصائل اسلام کا بیان اور اس بات کا بیان کہ اسلام میں کون سا کام افضل ہے۔
حدیث نمبر: 164
وحَدَّثَنِيهِ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ المُسْلِمِينَ أَفْضَلُ؟ فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
ابراہیم بن سعید جوہری، ابو اسامہ، برید بن عبد اللہ اس روایت میں دوسری سند کے ساتھ یہ الفاظ ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا مسلمان افضل ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ذکر فرمایا-
اور مجھے ابراہیم بن سعید جوہریؒ نے ابو ا سامہؒ سے، برید بن عبداللہ سے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا مسلمان افضل ہے؟ آگے اوپر والی حدیث ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه» ‏‏‏‏
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 164  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ ﷺ نے ایک سوال کا جواب دو مختلف انسانوں کو مختلف دیا ہے اس کا جواب یہ ہے،
ایک دوسرے پر فضیلت اشخاص میں ہویا اعمال میں اس کی دوصورتیں ہیں:
(1)
فضیلت کلی۔
(2)
فضیلت جزئی۔
فضیلت کلی یہ ہے کہ ایک چیز اپنی ذات اورشخصیت کے لحاظ سے دوسری چیز سے بہتراور افضل ہے،
لیکن کسی جزئی امر کے اعتبارسے مفضول چیز میں فضیلت آسکتی ہے اور اس خاص امر میں اسی کو افضل قرار دیا جائے گا اور اس جزئی امر میں فضیلت سے یہ چیز کلی فضیلت والی چیز سے افضل نہیں بن جائے گی،
اور یہ جزئی امور یا اوصاف مختلف ہو سکتے ہیں،
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء سے افضل اور اشرف ہیں،
لیکن اس کے باوجود بہت سے انبیاء کے لیے مختلف وجوہ،
مختلف اعتبارات او ر مختلف حیثیات سے فضیلت ثابت ہے،
ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں جن کو سب سے پہلے حلہ پہنایا جائے گا،
موسی علیہ السلام کلیم اللہ ہیں،
جو نفخ ثانی کے بعد سب سے پہلے ہوش میں آکر عرش کا پایا تھام ہوں گے،
تیسرے پارے کی پہلی آیت میں اسی جزئی فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔
صحابہ کرامؓ میں خلفائے اربعہؓ،
ترتیب خلافت کے مطابق افضل ہیں،
اس کے باوجود آپ ﷺ نے فرمایا:
"أَمِیْنُ ھذِہِ الأُمَّةِ أَبُوعُبَیْدَۃُ ابنُ الْجَرَّاحِ" میری امت کے امین ابو عبیدہؓ ہیں۔
"أَصْدَقُھُمْ لَھْجَةً أَبُو ذَرٍ" سب سے سچا آدمی ابو ذرؓ ہے۔
"أَقْرَأُھُمْ أُبَيٌّ" سب سے بڑا قاری ابیؓ ہے۔
"أَشَدُّھُمْ فِيْ أَمْرِ اللہِ عُمَرُ،
وَأَصْدَقُھُمْ حَیَاءً عُثْمَانُ،
وَأَقْضَاھُمْ عَلِيٌّ" اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں سب سے پختہ عمرؓ،
سب سے بڑا حیا دار عثمانؓ ہے اور سب سے بڑا قاضی علیؓ ہے۔
بالکل اسی طرح اعمال میں بھی مختلف حیثیات اور مختلف جہات،
فضیلت کی بنا پر تفاضل ہو سکتاہے،
بعض اعمال کی فضیلت مسلمات فطرت میں سے ہونے کی وجہ سے ہے کہ ان کی اچھائی ہر مسلم اور غیر مسلم،
نیک وبد تسلیم کرتا ہے،
مثلاً:
بچوں سے پیار،
غریبوں مسکینوں کی خبر گیری کرنا،
مریضوں کی عیادت کرنا،
لوگوں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا اور نرمی کا برتاؤ کرنا،
اس لیے وہ تمام امور جن میں خیر ہی خیر ہے،
شر کا کوئی پہلو نہیں وہ افضل ہیں،
لیکن مختلف اشخاص،
مختلف اوقات اور مختلف موقعہ ومحل کے اعتبار سے ان میں سے مختلف عملوں کو افضل قرار دیا جاسکتا ہے،
کھانا کھلانا،
ہر ایک کو سلام کہنا،
دوسروں کو ایذا نہ پہنچانا،
سب افضل ہیں،
لیکن شخص یا وقت یا موقعہ کے بدلنے سے جواب بدل گیا ہے۔
اسی طرح بعض اعمال کی فضیلت ان سے ثواب عظیم اور اجرجزیل کے حصول کی بنا پر ہے،
کیونکہ ان کے حصول کے لیے محنت ومشقت زیادہ برداشت کرنی پڑتی ہے،
اور قاعدہ وقانون سے انعامات کا انحصار،
تکالیف ومصائب کی برداشت پر ہے۔
"اَلْعَطَایَا عَلی مَتْنِ الْبَلَایَا" اور حضرت عائشہؓ کو آپ نے فرمایا تھا:
"أَجْرُكِ عَلَی قَدْرِ نَصَبكِ" تمہیں تمہاری محنت کے بقدر ثواب ملے گا۔
اس اعتبارسے سب سے افضل عمل آبائی دین کو چھوڑ کر دین اسلام کو قبول کرنا ہے،
اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ ہے،
اس کے بعد حج مبرور کا درجہ ہے۔
بعض اعمال کی افضلیت کی وجہ یہ ہے کہ ان سے انسان کی عبدیت،
انتہائی عجز وانکساری اور تواضع وتذلل کا اظہار ہوتا ہے،
اس اعتبار سے سب سے افضل اور بہتر عمل "الْصَّلَاةُ لِوَقْتِھَا" ہے،
یعنی وقت پر نماز پڑھنا،
کیونکہ نماز کے اندر جس قدر انتہائی عجز وفروتنی اور انسان کی محکومیت وعبودیت کا مظاہرہ پایا جاتا ہے،
وہ کسی اور عمل میں نہیں ہے۔
دوسرا درجہ برالوالدین ماں باپ کی اطاعت وفرمانبردار ی ہے۔
اور تیسرا درجہ اطاعت امیر ہے،
اس لیے مختلف حدیثوں میں جو ایک سوال کے مختلف جوابات آئے ہیں یا آئیں گے ان میں کوئی تضاد اور مخالفت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 164