صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
19. باب الْحَثِّ عَلَى إِكْرَامِ الْجَارِ وَالضَّيْفِ وَلُزُومِ الصَّمْتِ إِلاَّ مِنَ الْخَيْرِ وَكَوْنِ ذَلِكَ كُلِّهِ مِنَ الإِيمَانِ:
باب: ہمسایہ اور مہمان کی خاطرداری کرنے کی ترغیب، اور نیکی کی بات کے علاوہ خاموش رہنا ایمان کی نشانیوں میں سے ہے۔
حدیث نمبر: 173
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيى ، أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ".
ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کی، آپ نے فرمایا: جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے۔ اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کا احترام کرے۔ اور جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰنؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: جو انسان اللہ اور قیامت پر ایمان و یقین رکھتا ہے، وہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کا احترام کرے، اور جو آدمی اللہ اور آخری دن پر یقین رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أنفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (15339)» ‏‏‏‏
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3971  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3971]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بری بات کہنے سے اجتناب ایمان کا تقاضہ ہے۔

(2)
فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بے فائدہ باتوں میں مشغول رہنے سے ذکر الہی اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا بہت ہی بہتر ہے۔
اس کی وجہ سے گناہ سے حفاظت ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3971   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2500  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے،
یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے،
کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2500