صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
19. باب الْحَثِّ عَلَى إِكْرَامِ الْجَارِ وَالضَّيْفِ وَلُزُومِ الصَّمْتِ إِلاَّ مِنَ الْخَيْرِ وَكَوْنِ ذَلِكَ كُلِّهِ مِنَ الإِيمَانِ:
باب: ہمسایہ اور مہمان کی خاطرداری کرنے کی ترغیب، اور نیکی کی بات کے علاوہ خاموش رہنا ایمان کی نشانیوں میں سے ہے۔
حدیث نمبر: 174
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلَا يُؤْذِي جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ ".
ابوحصین نے ابوصالح سے اور انہو ں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے، اور جوشخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے، او رجوشخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے، وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے، اور جو آدمی اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے، تو وہ اپنے مہمان کی تکریم کرے، اور جو انسان اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے، وہ اچھی بات کرے یا پھر چپ رہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الادب، باب: من كان يومن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره برقم (5672) وابن ماجه فى ((سننه)) فى الفتن، باب: كف اللسان فى الفتنة مختصراً برقم (3971) انظر ((التحفة)) برقم (12843)» ‏‏‏‏
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3971  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3971]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بری بات کہنے سے اجتناب ایمان کا تقاضہ ہے۔

(2)
فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بے فائدہ باتوں میں مشغول رہنے سے ذکر الہی اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا بہت ہی بہتر ہے۔
اس کی وجہ سے گناہ سے حفاظت ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3971   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2500  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے،
یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے،
کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2500