صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
29. باب بَيَانِ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ 
باب: اس حدیث کا بیان کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ ہو جانا۔
حدیث نمبر: 225
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " وَيْحَكُمْ، أَوَ قَالَ: وَيْلَكُمْ، لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ".
محمد بن جعفر نے کہا: ہم سے شعبہ نے واقد بن محمد بن زید سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا، وہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: تم پر افسوس ہوتا ہے (یا فرمایا: تمہارے لیے تباہی ہو گی) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: تم پر تعجب اور حیرت ہے یا فرمایا: تم پر افسوس ہے! میرے بعد کافر وں کی طرح ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث الذى قبله (221)»
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4686  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4686]
فوائد ومسائل:
اعمال سئیہ سےایمان میں کمی آتی ہے، مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا بد ترین اعمال میں سے ہے، یہ ایمان کی کمی کی دلیل ہے جسے کفر سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن اس وجہ سے انسان ملت سے خارج نہیں ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4686   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 225  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
وَيْلٌ:
تعجب اور دکھ کے لیے استعمال ہے۔
اور وَيْحٌ رحم و ترس کے موقع پر استعمال کرتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
(1)
مسلمانوں کا ایک دوسرے سے جنگ اورقتال کرنا اور اس کوجائز اور درست قرار دینا،
ایک دوسرے کا کافر دینے کے مترادف ہے،
اور اس کی نحوست کفر تک پہنچا سکتی ہے۔
(2)
مسلمانوں کا باہمی لڑنا ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کرنا ہے،
کیونکہ ان میں اخوت ومروت کا تعلق ہے جو ایک دوسرے کے تعاون وتناصر کو ضروری ٹھہراتا ہے۔
(3)
مسلمان مسلمانوں سے لڑائی نہیں کرتا،
بلکہ مسلمانوں کی لڑائی حربی کافروں سے ہے،
اس لیے باہمی لڑائی کافروں کا طریقہ اور رویہ اختیار کرنا ہے اور مسلمانوں کو ان کی مشابہت اور طرز عمل اپنانے سے منع کیا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 225