صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
9. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ»:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ بسا اوقات وہ شخص جسے (حدیث) پہنچائی جائے سننے والے سے زیادہ (حدیث کو) یاد رکھ لیتا ہے۔
حدیث نمبر: 67
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، ذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَمْسَكَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ أَوْ بِزِمَامِهِ، قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ سِوَى اسْمِهِ، قَالَ: أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟ قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟ فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ بِذِي الْحِجَّةِ؟ قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَإِنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أَنْ يُبَلِّغَ مَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ مِنْهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر نے، ان سے ابن عون نے ابن سیرین کے واسطے سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے نقل کیا، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم سمجھے کہ آج کے دن کا آپ کوئی دوسرا نام اس کے نام کے علاوہ تجویز فرمائیں گے (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بیشک۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم (اس پر بھی) خاموش رہے اور یہ (ہی) سمجھے کہ اس مہینے کا (بھی) آپ اس کے نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام تجویز فرمائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بیشک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ پس جو شخص حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ (بات) پہنچا دے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جو شخص یہاں موجود ہے وہ ایسے شخص کو یہ خبر پہنچائے، جو اس سے زیادہ (حدیث کا) یاد رکھنے والا ہو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 67  
´شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے`
«. . . ذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَمْسَكَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ أَوْ بِزِمَامِهِ، قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ . . .»
. . . (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 67]

تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت امام خطیب یا محدث یا استاد سواری پر بیٹھے ہوئے بھی خطبہ دے سکتا ہے، وعظ کہہ سکتا ہے۔ شاگردوں کے کسی سوال کو حل کر سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے اور خود جواب دینے میں عجلت سے کام نہ لے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض شاگرد فہم اور حفظ میں اپنے استادوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ چیز استاد کے لیے باعث مسرت ہونی چاہئیے۔ یہ حدیث ان اسلامی فلاسفروں کے لیے بھی دلیل ہے جو شرعی حقائق کو فلسفیانہ تشریح کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں احکام شرع کے حقائق و فوائد بیان کرنے میں بہترین تفصیل سے کام لیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 67   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 105  
´جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں `
«. . . أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ . . .»
. . . سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 105]

تشریح:
مقصد یہ کہ میں اس حدیث نبوی کی تعمیل کرچکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں یہ فرمایا تھا، دوسری حدیث میں تفصیل سے اس کا ذکر آیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 105   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 637  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے روز خطبہ دیا اور ساری حدیث ذکر کی۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 637]
637فائدہ:
حج کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی خطبے ثابت ہیں۔ مالکیہ اور احناف کے نزدیک ایک خطاب ساتویں ذی الحجہ کو اور دوسرا عرفہ میں، 9 تاریخ کو اور تیسرا گیارھویں ذی الحجہ کو ہو گا۔ دسویں ذی الحجہ، یعنی قربانی کے دن کے خطاب کو مالکیہ اور حنفیہ خطبہ نہیں کہتے بلکہ صرف چند نصیحتیں کہتے ہیں۔ یہ عید کا خطبہ نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید تو ادا ہی نہیں فرمائی تھی۔ بعض اسے خطبہ ہی کہتے ہیں، اس طرح چار خطبے مسنون ہو جاتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 637   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:67  
67. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص اس کی نکیل یا باگ تھامے ہوئے تھا، آپ نے فرمایا: یہ کون سا دن ہے؟ ہم لوگ اس خیال سے خاموش رہے کہ شاید آپ اس کے اصل نام کے علاوہ کوئی اور نام بتائیں گے۔ آپ نے فرمایا:یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا:یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم پھر اس خیال سے چپ رہے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ماہ ذوالحجہ نہیں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ تب آپ نے فرمایا: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسا کہ تمہارے ہاں اس شہر اور اس مہینے میں اس دن کی حرمت ہے۔ چاہیے کہ جو یہاں حاضر ہے وہ غائب کو یہ خبر پہنچا دے، اس لیے کہ شاید حاضر ایسے شخص کو خبر کر دے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:67]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو مقاصد کے پیش نظر اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔
(الف)
۔
تبلیغ کی اہمیت سے ہمیں آگاہ کرنا یعنی اگر کوئی شخص حدیث کے معانی کو نہ سمجھتا ہو بلکہ اس نے صرف الفاظ ہی یاد کررکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ ان الفاظ کو دوسروں تک پہنچادے۔
ممکن ہے کہ کوئی شاگرد یا سامع اس سے زیادہ سمجھدار ہو اور وہ اس حدیث سے مسائل کا استخراج واستنباط کرے۔
(ب)
۔
اس بات پر تنبیہ بھی مقصود ہے کہ اگرکوئی طالب علم ہونہار اور سمجھدار ہوا اوراستاد اتنا ذہین وفطین نہ ہو تو طالب علم کو اس سے تحصیل علم کے متعلق کوئی شرم یاعار نہیں ہونی چاہیے۔
خواہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو لیجئے کہ ان کے اساتذہ ان کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں، اس لیے یہ تصور غلط ہے کہ شاگرد استاد کے مقابلے میں ہمیشہ ادنیٰ اور کمزور ہی ہوتا ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت امام، خطیب یا محدث سواری پر بیٹھے ہوئے بھی وعظ کرسکتا ہے، خطبہ بھی دے سکتا ہے، شاگردوں سے سوال وجواب بھی کرسکتاہے، نیز شاگرد کو چاہیے کہ وہ استاد کی تشریح اور تفصیل کا انتظار کرے اور خود جواب دینے میں جلدی نہ کرے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض شاگرد فہم وحفظ میں اپنے اساتذہ سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر دسویں تاریخ کو جمرات کے پاس کھڑے ہوکرارشاد فرمایا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1742)
ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حاضرین سے دریافت فرمایا کہ یہ کون سادن ہے؟ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خاموشی اختیار کی۔
اورصحیح بخاری ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا کہ آج یوم النحر ہے۔
(حدیث: 1739)
ان روایات میں تعارض نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب جو لوگ تھے وہ خاموش رہے ہوں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھیوں نے جواب دیا ہو اور ہرشخص نے اپنے علم کے مطابق روایت بیان کردی۔
(فتح الباري: 210/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 67