صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
33. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ حُبَّ الأَنْصَارِ وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِنَ الإِيمَانِ وَعَلاَمَاتِهِ وَبُغْضَهُمْ مِنْ عَلاَمَاتِ النِّفَاقِ:
باب: انصار اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔
حدیث نمبر: 236
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " حُبُّ الأَنْصَارِ آيَةُ الإِيمَانِ، وَبُغْضُهُمْ آيَةُ النِّفَاقِ ".
خالد بن حارث نے کا: ہمیں شعبہ نے حدیث سنائی، انہوں نے عبد اللہ بن عبد اللہ سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے او ران سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔
حضرت انس ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انصار سے محبت ایمان کی علامت اور ان سے بغض نفاق کی نشانی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (232)» ‏‏‏‏
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 17  
´انصار کی محبت ایمان کی نشانی`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]

تشریح:
امام عالی مقام نے یہاں بھی مرجیہ کی تردید کے لیے اس روایت کونقل فرمایا ہے۔ انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کی امداد و اعانت کے صلہ میں دیا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مدینہ آ گئی تو اس وقت مدینہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگر اہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجا انصار و مہاجرین کا ذکر خیر ہوا ہے اور «رضي الله عنهم ورضوا عنه» سے ان کو یاد کیا گیا ہے۔

انصار کے مناقب و فضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہو گا۔ ان کے باہمی جنگ و جدال کے متعلق علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وانماكان حالهم فى ذلك حال المجتهدين فى الاحكام للمصيب اجران وللمخطي اجرواحد والله اعلم» یعنی اس بارے میں ان کو ان مجتہدین کے حال پر قیاس کیا جائے گا جن کا اجتہاد درست ہو تو ان کو دو گنا ثواب ملتا ہے اور اگر ان سے خطا ہو جائے تو بھی وہ ایک ثواب سے محروم نہیں رہتے۔ «المجتهد قديخطي ويصيب» ہمارے لیے یہی بہتر ہو گا کہ اس بارے میں زبان بند رکھتے ہوئے ان سب کو عزت سے یاد کریں۔

انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے بارے میں فرمایا: «لولا الهجرة لكنت امرا من الانصار» [بخاری شریف] اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شہر مدینہ میں ان کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں۔

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار ہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ اس سے بھی انصار کی شان و مرتبت کا اظہار مقصود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 17