صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
38. باب بَيَانِ الْكَبَائِرِ وَأَكْبَرِهَا:
باب: کبیرہ گناہوں اور اکبر الکبائر کا بیان۔
حدیث نمبر: 261
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَبَائِرَ، أَوْ سُئِلَ عَنِ الْكَبَائِرِ، فَقَالَ: " الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَالَ: أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ قَالَ: قَوْلُ الزُّورِ، أَوَ قَالَ: شَهَادَةُ الزُّورِ، قَالَ شُعْبَةُ: وَأَكْبَرُ ظَنِّي أَنَّهُ شَهَادَةُ الزُّورِ.
محمد بن جعفر نے کہا: ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھ سے عبید اللہ بن ابی بکر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے گناہوں کا تذکرہ فرمایا (یاآپ سے بڑے گناہوں کے بارے میں سوال کیا گیا) تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ (پھر) آپ نے فرمایا: کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ فرمایا: جھوٹ بولنا (یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا) شعبہ کاقول ہے: میرا ظن غالب یہ ہے کہ وہ جھوٹی گواہی ہے۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے گناہوں کا تذکرہ فرمایا (یا آپ سے بڑے گناہوں کے بارے میں سوال ہوا) تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا والدین کی نافرمانی کرنا، اور فرمایا کیا میں کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ کی تمھیں خبر نہ دوں؟ فرمایا: جھوٹ بولنا (یا فرمایا جھوٹی گواہی دینا)۔ شعبہ کا قول ہے میرا ظن غالب یہ ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی شہادت کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (256)»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 51  
´ایک کبیرہ گناہ جھوٹی قسم ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةِ أَنَسٍ: «وَشَهَادَةُ الزُّورِ» بَدَلُ: «الْيَمِينُ الْغمُوس» . . .»
. . . اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں جھوٹی قسم کی بجائے جھوٹی گواہی دینا ہے . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 51]

تخریج:
[صحيح بخاري 6675]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث میں سابقہ حدیث مشکوۃ المصابیح [50] پر ایک کبیرہ گناہ جھوٹی قسم کے ذکر کا اضافہ کیا گیا ہے۔
➋ ثقہ کی زیادہ، اگر ثقہ راویوں یا اوثق کے سراسر خلاف نہ ہو تو مقبول ہوتی ہے۔
➌ احادیث صحیحہ کے الفاظ میں راویوں کا اختلاف چنداں مضر نہیں ہوا، بلکہ تمام روایات کو اکھٹا کر کے تمام الفاظ کے مشترکہ مفہوم پر ایمان و عمل کی بیناد رکھی جاتی ہے۔
➍ عدم ذکر نفی کی حتمی دلیل نہیں ہوتا، بلکہ ذکر والی روایت کو تمام عدم ذکر والی روایتوں پر ہمیشہ ترجیح ہوتی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 51   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1207  
´جھوٹ اور جھوٹی گواہی وغیرہ پر وارد وعید کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں ۱؎ سے متعلق فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا (کبائر میں سے ہیں ۲؎)۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1207]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے ارتکاب پرقرآن کریم یا حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہو۔

2؎:
کبیرہ گناہ اوربھی بہت سارے ہیں یہاں موقع کی مناسبت سے چند ایک کا تذکرہ فرمایا گیا ہے،
یا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ چند مذکورہ گناہ کبیرہ گناہوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔
یہاں مؤلف کے اس حدیث کو کتاب البیوع میں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خرید وفروخت میں بھی جھوٹ کی وہی قباحت ہے جو عام معاملات میں ہے،
مومن تاجر کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1207   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 261  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
موقع محل کی مناسبت سے آپ ﷺ نے یہاں شرک باللہ کی بجائے،
جھوٹی شہادت کو اکبر الکبائر قرار دیا ہے،
کیونکہ جھوٹی شہادت سے روکنا اور اس سے ڈرانا مقصو د تھا اور شرک بھی درحقیقت ایک جھوٹی شہادت اورجھوٹا بول ہے۔
اللہ تعالیٰ کے مقام ومرتبہ کو نظر انداز کرکے یہ بری حرکت کی جاتی ہے اور اس کی مخلوق کو اس کا شریک وپیہم قرار دیا جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 261