صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
39. باب تَحْرِيمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ:
باب: تکبر کے حرام ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 265
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ جميعا، عَنْ يَحْيَى بْنِ حَمَّادٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ ، عَنْ فُضَيْلٍ الْفُقَيْمِيِّ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ "، قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ، يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا، وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ.
یحییٰ بن حماد نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابان بن تغلب سے حدیث سنائی، انہوں نے فضیل بن عمرو فقیمی سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ ایک آدمی نے کہا: انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ نے فرمایا: اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر، حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس کے دل میں ذرّہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ایک شخص نے پوچھا: آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں، آپؐ نے فرمایا: اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، کبر (خود پسندی) حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في البر والصلة، باب: ما جاء في الكبر مطولا وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب - (1999) انظر ((التحفة)) برقم (9444)» ‏‏‏‏
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث59  
´ایمان کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر (گھمنڈ) ہو گا وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا، اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا وہ جہنم میں نہیں داخل ہو گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 59]
اردو حاشہ:
(1)
تکبر ایک بہت مذموم وصف ہے۔
تکبر کی حقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے واضح ہوتی ہے:
(اَلْكِبَرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (صحيح مسلم، الايمان، باب تحريم الكبر و بيانه، حديث: 91)
تکبر کا مطلب حق بات کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔

(2)
اگر تکبر کی بنا پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ایمان لانے سے انکار کیا جائے تو اس کی سزا دائمی جہنم ہے کیونکہ یہ ایمان کے سراسر منافی ہے اور اگر تکبر اس قسم کا ہے کہ کوئی شخص مال و دولت، حسن و جمال، جاہ و منصب وغیرہ کی وجہ سے دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق بات ماننے سے انکار کرتا ہے، تو یہ تکبر بھی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے جس کی وجہ سے وہ جہنم کی سزا بھگتے بغیر جنت میں نہیں جا سکے گا، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے اسے معاف کر دے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 59   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1998  
´تکبر اور گھمنڈ کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو گا ۱؎ اور جہنم میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1998]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مراد جنت میں پہلے پہل جانے کا ہے،
ورنہ ہر موحد سزا بھگتنے بعد إن شاء اللہ جنت میں جائے گا۔

2؎:
مراد کفار کی طرح جہنم میں داخل ہونے کا ہے،
یعنی ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں نہیں داخل ہوگا،
بلکہ اخیر میں سزا کاٹ کر جنت میں چلا جائے گا،
إن شاء اللہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1998   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4091  
´تکبر اور گھمنڈ کی برائی کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے برابر کبر و غرور ہو اور وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4091]
فوائد ومسائل:
 تکبر جو اللہ تعالی کے انکار اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے معنی میں ہو۔
کسی صورت معاف نہیں ہے اور عام اندازکا تکبر جو لوگوں کی طبیعت میں ہوتا ہے کہ وہ دوسروں پر بڑائی کا اظہارکرتے ہیں، جیسے کہ اگلی حدیث میں اس کا ذکر آرہا ہے۔
وہ بھی ایک قبیح خصلت ہے، اگر اللہ تعالی معاف فرمائے تو اس سزا بھی جنت سے محرومی ہے اور ایمان خواہ معمولی ہی ہو اس کی جزا جنت ہے، اگر گناہوں پر سزا ہوئی تو ان شااللہ بالآخر بفضلہ تعالی جنت میں داخل کرلیا جائے گا۔
گویا مومن جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔
کا مطلب ہمیشہ کے لئے داخل نہ ہوہے عارضی طور پر بطور سزا داخل ہونا ممکن ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4091   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 265  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کبریائی اور بڑائی خالق کائنات کےلیے زیبا ہے،
کسی انسان کےلیے روا نہیں،
کیونکہ انسان محکوم اور پابند ہے،
آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔
(یعنی دین سے آزاد اور اسلام سے بالاتر نہیں)
لیکن رہن سہن،
لباس اور استعمال کی چیزوں میں اپنی حیثیت کے مطابق حلال کمائی سے،
اعلیٰ معیار اختیار کرنا،
صاف ستھرا رہنا یہ خود پسندی نہیں ہے،
خود پسندی اور تکبر یہ ہے کہ انسان ہمچوں مادیگرے نیست "أنا خیر منه" کا شکار ہو کر آزادی وخود مختاری کا اظہار کرتے ہوئے حق کا انکار کرے،
کسی کو اپنے ہم پلہ نہ سمجھے،
بلکہ لوگوں کو حقیر وذلیل تصور کرے،
اس بد خصلت کی خاصیت او رتاثیر یہی ہے کہ ایسا آدمی دوزخ میں جائے،
کیونکہ وہ کسی کے حق کو تسلیم ہی نہیں کرتا،
تو وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کیسے کرے گا کہ جنت میں جاسکے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 265