صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
40. باب مَنْ مَاتَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ مَاتَ مُشْرِكًا دَخَلَ النَّارَ:
باب: جو آدمی اللہ کے ساتھ شرک کیے بغیر مر گیا اس کے جنتی ہونے، اور جو شرک پر مرا اس کے جہنمی ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 268
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، وَوَكِيعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ وَكِيعٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ مَاتَ، يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ النَّارَ "، وَقُلْتُ أَنَا: وَمَنْ مَاتَ، لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ.
عبد اللہ بن نمیر اور وکیع نے اعمش سے، انہوں نے شقیق سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی (وکیع نے کہا: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور عبد اللہ بن نمیر نے کہا: عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا) آپ فرما رہے تھے: جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہراتا تھا، وہ آگ میں داخل ہو گا۔ اور میں (عبد اللہ) نے کہا: جو اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے شرک نہ کرتا تھا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپؐ فرما رہے تھے: جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہوا مرا وہ دوزخی ہے۔ اور میں نے کہا: جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہوا(توحید پہ) مرا وہ جنّت میں داخل ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجنائز، باب: في الجنائز، ومن كان آخر كلامه المنشاة لا اله الا الــلــه بـرقــم (1181) وفي التفسير، باب: قوله ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ﴾ برقم (4227) وفي الايمان والنذور، باب: اذا قال: والله لا اتكلم اليوم فصلي، او قرا او سبح او كبر او حمد او هلل فهو علي نيته برقم (6305) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (9255)»
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 268  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
توحید پورے دین کا نچوڑ،
روح اور مغز ہے۔
دوسرے الفاظ میں پورے دین کا عنوان ہے،
کیونکہ توحید یہ ہے کہ اللہ کی ذات،
صفات واسماء،
افعال اور اس کے حقوق میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
اور اس توحید کا اقرار کرنے والا شعوری طور پر دین وشریعت کی زندگی کے کسی گوشہ میں مخالفت نہیں کر سکتا،
اس لیے وہ سیدھا جنت میں داخل ہوگا۔
اس کے مقابلہ میں شرک یہ ہے کہ اللہ کی ذات یا صفات واسماء یا افعال یا اس کے حقوق میں کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور ان میں سے شرک کی کسی جزئی کا مرتکب سیدھا جنت میں داخل نہیں ہوگا،
ہاں اگر اس میں توحید کا کوئی جز ہوگا تو اس کی بنا پر وہ کسی نہ کسی وقت سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہوسکے گا۔
اس قسم کی احادیث میں توحید حقیقی اور شرک اصلی کے نتائج بیان کیے گئے ہیں،
جن میں ایک دوسرے کا اختلاط نہیں ہے،
کیونکہ مفردات کے خواص کسی دوسرے چیز کے ساتھ مرکب ہونے سے بدل جاتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 268