صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
41. باب تَحْرِيمِ قَتْلِ الْكَافِرِ بَعْدَ أَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ:
باب: کافر کو لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کرنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 277
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ كِلَاهُمَا، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي ظِبْيَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَأَدْرَكْتُ رَجُلًا، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَطَعَنْتُهُ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السِّلَاحِ، قَالَ: " أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ، حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا؟ " فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: فَقَالَ سَعْدٌ: وَأَنَا وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتَّى يَقْتُلَهُ ذُو الْبُطَيْنِ يَعْنِي أُسَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ، وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ، فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ، وَأَنْتَ، وَأَصْحَابُكَ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونُ فِتْنَةٌ.
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں ابو خالد احمر نے حدیث سنائی اور ابو کریب اور اسحاق بن ابراہیم نے ابو معاویہ سے اور ان دونوں (ابو معاویہ اور ابو خالد) نے اعمش سے، انہوں نے ابو ظبیان سے اور انہوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی (حدیث کے الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک چھوٹے لشکر میں (جنگ کے لیے) بھیجا، ہم نے صبح صبح قبیلہ جہینہ کی شاخ حرقات پر حملہ کیا، میں ایک آدمی پر قابو پا لیا تو اس نے لا إلہ إلا اللہ کہہ دیا لیکن میں نے اسے نیزہ مار دیا، اس بات سے میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا تو میں نے اس کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس نے لا إلہ إلا اللہ کہا اور تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس نے اسلحے کے ڈر سے کلمہ پڑھا، آپ نے فرمایا: تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے (دل سے) کہا ہے یا نہیں۔ پھر آپ میرے سامنے مسلسل یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نےتمنا کی کہ (کاش) میں آج ہی اسلام لایا ہوتا (اور اسلام لانے کی وجہ سے اس کلمہ گو کے قتل کے عظیم گناہ سے بری ہو جاتا۔) ابو ظبیان نے کہا: (اس پر) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اور میں اللہ کی قسم! کسی اسلام لانے والے کو قتل نہیں کروں گا جب تک ذوالبطین، یعنی اسامہ اسے قتل کرنے پر تیار نہ ہوں۔ ابو ظبیان نے کہا: اس پر ایک آدمی کہنے لگا: کیااللہ کا یہ فرمان نہیں: اور ان سے جنگ لڑو حتی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کا ہو جائے۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہم فتنہ ختم کرنے کی خاطر جنگ لڑتے تھے جبکہ تم اور تمہارے ساتھی فتنہ برپا کرنے کی خاطر لڑنا چاہتے ہو۔
حضرت اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر کے ساتھ بھیجا، ہم صبح صبح جہینہ قبیلہ کی بستی حرقات پہنچ گئے۔ میں نے ایک آدمی پرغلبہ حاصل کیا تو اس نے لاالٰہ الا اللہ کہہ دیا، میں نے (اس کو) کاٹ ڈالا۔ اس کے بارے میں میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا، سو میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے لاالٰہ الااللہ کہنے کے باوجود اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس نے اسلحہ کے ڈر سے کلمہ پڑھا۔ آپؐ نے فرمایا: تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھ لیا، تاکہ تمہیں پتا چل جاتا اس نے دل سے کہا ہے یا ڈر سے۔ پھر آپؐ مسلسل کلمہ دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے خواہش کی کہ میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا، تو سعد ؓ کہنے لگے: اور میں اللہ کی قسم! کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک ذوالبُطَین یعنی اسامہ ؓ اسے قتل کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس پر ایک آدمی نے کہا: کیا اللہ کا یہ فرمان نہیں: ان سے لڑو حتیٰ کہ فتنہ مٹ جائے (کسی میں دین سے پھیرنے کی طاقت نہ رہے) اور اللہ کا پورا دین عام ہو جائے۔ تو سعد ؓ نے جواب دیا: ہم نے فتنہ فرو کرنے کی خاطر جنگ لڑی، تو اور تیرے ساتھی فتنہ برپا کرنے کی خاطر لڑنا چاہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في المغازي، باب: بعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم اسامة بن زيد الی الحرقات من جهينة برقم (4021) وفي الديات، باب: قول الله تعالی ﴿وَمَنْ أَحْيَاهَا﴾ برقم (6478) وابوداؤد في ((سننه)) في الجهاد، باب: علی ما يقاتل المشركون برقم (2643) انظر ((التحفة)) برقم (88)»
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2643  
´کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حرقات ۱؎ کی طرف ایک سریہ میں بھیجا، تو ان کافروں کو ہمارے آنے کا علم ہو گیا، چنانچہ وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن ہم نے ایک آدمی کو پکڑ لیا، جب ہم نے اسے گھیرے میں لے لیا تو «لا إله إلا الله» کہنے لگا (اس کے باوجود) ہم نے اسے مارا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا، پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن «لا إله إلا الله» کے سامنے تیری مدد کون کرے گا؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے یہ بات تلوار کے ڈر سے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2643]
فوائد ومسائل:

کافر جب بھی توحید ورسالت کا اقرار کرلے مقبول ہے۔
اور اس کی جان ومال کا محفوظ ہونا واجب ہے۔


احکام شریعت کا اعتبارونفاذ ظاہر پر ہوتاہے۔
دلوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔


حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل ایک اجتہادی خطا تھی۔
اس لئے ان پرکوئی دیت لازم نہ کی گئی۔


کلمہ گو کا قتل کبیرہ گناہ ہے۔


شہادت توحید اللہ کے ہاں باعث نجات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2643   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 277  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
حُرَقَات:
بقول بعض جہینہ کے علاقہ میں ایک بستی کا نام ہے۔
اور بعض کے نزدیک یہ قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ اور خاندان ہے۔
(2)
فِتْنَةٌ:
آزمائش،
امتحان،
مقصود ہے دین سے برگشتہ کرنے کی طاقت نہ رہے۔
(3)
فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ:
جگہ کا نام ہو تو صبح کے وقت پہنچے،
اگر خاندان ہو تو صبح صبح حملہ آور ہوئے۔
(4)
ذُو الْبُطَيْنِ:
باء کے فتحہ کے ساتھ بَطنٌ کی تصغیر،
بڑے پیٹ والا،
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ بڑھا ہوا تھا۔
فوائد ومسائل:
(1)
میدان جنگ میں اگر کافر کلمہ پڑھ لے تو وہ مسلمان تصور ہوگا،
کیونک ہم ظاہر کے پابند ہیں،
کسی کے دل سے آگاہی ہمارے بس میں نہیں ہے،
اس لیے یہ کہہ کر کہ اس نے کلمہ جان بچانے کے لیے پڑھا ہے اس کو قتل کرناجائز نہیں ہوگا۔
(2)
حضرت اسامہ ؓ نے ایک کافر کو کلمہ پڑھنےکے باوجود قتل کر دیا تھا،
لیکن آپ ﷺ نے اس پرقصاص،
دین یا کفارہ لازم نہیں ٹھہرایا،
صرف غصے کا اظہار کیا،
جس کی بنا پر حضرت اسامہ ؓ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! میں آج مسلمان ہوا ہوتا تاکہ اس جرم کے گناہ معاف ہوجاتے۔
حضرت اسامہ ؓ کے دل میں یہ خواہش ندامت وپشیمانی کا اظہار تھا،
یہ مقصد نہ تھا کہ میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
حضرت اسامہ ؓ چونکہ اس اصول سے آگاہ نہ تھے کہ ہم ظاہر کے پابند ہیں،
باطن اللہ کے سپرد ہے،
اس لیے انہوں نے ظاہری قرآن سے یہ سمجھا کہ اس نے ڈر کر کلمہ پڑھا ہے،
اس لیے اس کا خون بہانا جائز ہے،
اس لیے ان کو سزا نہیں دی گئی۔
(3)
حضرت سعد ؓ اور اسامہ ؓ،
حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی جنگوں میں الگ تھلگ ہوگئے تھے- وہ مسلمانوں کی باہمی جنگوں کوفتنہ برپا کرنے سے تعبیر کرتے تھے،
اس لیے شراکت کےلیے آمادہ نہ ہوئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 277