صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
46. باب بَيَانِ غِلَظِ تَحْرِيمِ إِسْبَالِ الإِزَارِ وَالْمَنِّ بِالْعَطِيَّةِ وَتَنْفِيقِ السِّلْعَةِ بِالْحَلِفِ وَبَيَانِ الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ لاَ يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ:
باب: ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے، احسان جتلانے، اور جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے کے سخت حرمت کا بیان، اور ان تین قسم کے لوگوں کا بیان جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔
حدیث نمبر: 297
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ يَمْنَعُهُ مِنِ ابْنِ السَّبِيلِ، وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَحَلَفَ لَهُ بِاللَّهِ لَأَخَذَهَا بِكَذَا وَكَذَا، فَصَدَّقَهُ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا، لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِدُنْيَا، فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا، وَفَى وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا لَمْ يَفِ ".
ابوبکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب دونوں نے کہا کہ ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی (اور یہ الفاظ ابوبکر کی حدیث کے ہیں) انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین (قسم کے لوگ) ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک صاف کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (ایک) وہ آدمی جو بیابان میں ضرورت سے زائد پانی رکھتا ہے لیکن وہ مسافر کو اس سے روکتا ہے، (دوسرا) وہ جس نے کسی آدمی کے ساتھ عصر کےبعد (عین انسانوں کےاعمال اللہ کے حضور پیش کیے جانے کے وقت) سامان کا سودا کیا اور اللہ کی قسم کھائی کہ میں نے یہ سامان اتنی رقم میں لیا ہے جبکہ اس نے اتنے کا نہیں لیا۔ اور خریدار اس کی بات مان لیتا ہے۔ اور (تیسرا) وہ آدمی جس نے حکمران کی بیعت کی اور صرف دنیا کے لیے کی (دین کی سربلندی مقصود نہ تھی۔) اگر اس نے اسے اس (دنیا) میں سے کچھ دے دیا تو (اس نے) وفا کی اور اگر نہیں دیا تو وفادار نہ رہا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے آدمی ہیں، قیامت کے دن اللہ ان سے گفتگو نہیں کرے گا۔ نہ ان لوگوں کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو پاک صاف کرے گا، ان کے لیے درد انگیز دکھ ہے۔ ایک آدمی جنگل میں اس کے پاس ضرورت سے زائد پانی ہے لیکن وہ مسافر کو اس سے روکتا ہے، دوسرا وہ جو کسی آدمی کو عصر کے بعد سامان بیچتا ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہے میں نے یہ سامان اتنی رقم میں خریدا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، خریدار نے اس کی بات مان لی۔ تیسرا وہ آدمی جو حکمران کی بیعت صرف اس لیے کرتا ہے کہ اس سے مفاد (دنیا) حاصل کرے، اگر وہ اسے مفاد پہنچاتا ہے تو وہ وفادار رہتا ہے اگر دنیا کا مفاد نہیں دیتا تو وہ بھی بیعت کا حق ادا نہیں کرتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه في ((سننه)) في التجارات باب: ما جاء في كراهية الايمان في الشراء والبيع برقم (2207) وفي الجهاد، باب: الوفاء بالبيعة برقم (2870) انظر ((التحفة)) برقم (12522)»
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2358  
´اس شخص کا گناہ جس نے کسی مسافر کو پانی سے روک دیا`
«. . . سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ كَانَ لَهُ فَضْلُ مَاءٍ بِالطَّرِيقِ فَمَنَعَهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيلِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں اٹھائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2358]

لغوی توضیح:
«فَضْلُ مَاءٍ» زائد، بچا ہوا پانی۔
«سِلعْتَهُ» اپنا سامان، سودا، سامان تجارت۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 68   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2207  
´خرید و فروخت میں حلف اٹھانے اور قسمیں کھانے کی کراہت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے اس قدر ناراض ہو گا کہ نہ تو ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ہی انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا: ایک وہ شخص جس کے پاس چٹیل میدان میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جو اپنا مال نماز عصر کے بعد بیچے اور اللہ کی قسم کھائے کہ اسے اس نے اتنے اتنے میں خریدا ہے، اور خریدار اسے سچا جانے حالانکہ وہ اس کے برعکس تھا، تیسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت کی، اور اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2207]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کلام نہ کرنے اور نظر نہ کرنے سے مراد رحمت سے کلام کرنا اور رحمت کی نظر کرنا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ہر نیک و بد سے حساب تو ضرور لے گا، اس کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ بھی نہیں ہو سکتی۔
ارشاد نبویﷺ ہے:
تم میں سے ہر شخص سے اس کا رب (براہ راست)
ہم کلام ہوگا، اس کے اور رب کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔
۔
۔ (صحيح البخاري، التوحيد، باب كلام الرب تعاليٰ يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم، حديث: 7512، وصحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة۔
۔
۔
، حديث: 1016)


(2)
  پاک نہ کرنے سے مراد گناہ معاف نہ کرنا ہے۔

(3)
پیاسے کو پانی بلانا بڑی نیکی ہے، خاص طور پر جہاں پانی آسانی سے نہ ملتا ہو، وہاں دوسرے کو پانی پلا دینا بہت بڑے ثواب کا باعث ہے۔

(4)
  صحرا میں پانی کا چشمہ اللہ کا فضل ہے، کسی کا اس پر قبضہ کرکے بیٹھ رہنا اور ضرورت مندوں کو پانی لینے سے روکنا انتہائی کم ظرفی ہے۔

(5)
جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے۔
عصر کے بعد جھوٹی قسم کھانا زیادہ بڑا گناہ ہے۔
اور پھر انتا بڑا گناہ چند پیسوں کے متوقع مفاد کے لیے کیا گیا ہے کیونکہ یہ بات یقینی نہیں کہ گاہک اس کی جھوٹی قسم سے متاثر ہو کر اس سے سودا خرید ہی لے گا۔
ایسی صورت میں جھوٹی قسم انتہائی بری حرکت ہے، اس لیے اس کی سزا بھی شدید ہے۔

(6)
مسلمان خلیفہ کی بیعت اسلامی سلطنت کے تحفظ اور ترقی کے لیے کی جاتی ہے اور اس میں تمام مسلمانوں کا دینی اور دنیوی فائدہ ہے۔
ایسے عظیم عمل میں دنیا کو سامنے رکھنا اور دنیا کا مال نہ ملنے پر بیعت توڑ کر بغاوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کو آخرت کی کوئی پروا نہیں اور دنیا کےذاتی مفاد کے کے لیے وہ مسلمانوں کا اجتماعی مفاد خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
ایسی حرکت کی برائی محتاج وضاحت نہیں۔

(7)
کفر و شرک سے کم تر کبیرہ گناہ بھی ایسے شدید ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے جہنم کا طویل اور شدید عذاب برداشت کرنا پڑے، تاہم دائمی عذاب صرف کافر اور شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہی کے لیے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2207   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1216  
´دعویٰ اور دلائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی جانب نظر (رحمت) کرے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا پہلا وہ آدمی جو ایک مسافر کو جنگل میں بچے ہوئے پانی سے روکتا ہے اور دوسرا وہ آدمی جو عصر کے بعد کسی چیز کا دوسرے سے سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ اس نے اس چیز کو اتنے اتنے میں خریدا ہے حالانکہ حقیقت ایسے نہ تھی اور وہ خریدار اس کو سچ مان گیا اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیاوی غرض کے لئے کسی بادشاہ کی بیعت کی اگر بادشاہ اس کو کچھ دیتا ہے تو وہ وفا کرتا ہے اور اگر وہ اس کو کچھ نہیں دیتا (یعنی دنیا کا مال) تو وہ وفا نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1216»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب من بايع رجلاً لا يبايعه إلا للدنيا، حديث:7212، ومسلم، الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية...، حديث:108.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے زائد از ضرورت پانی کو روک لینا اور ضرورت مندوں کو لینے نہ دینا‘ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرنا اور دنیوی غرض کے لیے حاکم وقت کی تائید کرنا‘ رب کائنات کی سخت ناراضی کے موجب اعمال ہیں اور رحمت الٰہی سے محرومی کا باعث ہیں۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کی سزا جس طرح کسی افضل جگہ کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے اسی طرح افضل وقت کے لحاظ سے بھی اس کی سزا میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1216   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1595  
´بیعت توڑنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس نے کسی امام سے بیعت کی پھر اگر امام نے اسے (اس کی مرضی کے مطابق) دیا تو اس نے بیعت پوری کی اور اگر نہیں دیا تو بیعت پوری نہیں کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1595]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
باقی دو آدمی جن کا اس حدیث میں ذکر نہیں ہے وہ یہ ہیں:
ایک وہ آدمی جس کے پاس لمبے چوڑے صحراء میں اس کی ضرورتوں سے زائد پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے،
دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں لی ہے،
پھر خریدار نے اس کی بات کا یقین کر لیا حالانکہ اس نے غلط بیانی سے کام لیا تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1595   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3474  
´چارہ روکنے کے لیے پانی کو روکنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا: ایک تو وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو دینے سے انکار کر دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان بیچنے کے لیے عصر بعد جھوٹی قسم کھائے، تیسرا وہ شخص جو کسی امام (و سربراہ) سے (وفاداری کی) بیعت کرے پھر اگر امام اسے (دنیاوی مال و جاہ) سے نوازے تو اس کا وفادار رہے، اور اگر اسے کچھ نہ دے تو وہ بھی عہد کی پاسداری نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3474]
فوائد ومسائل:

بقیہ پانی کو مسافروں سے روک لینا انتہائی شقاوت اور بے مروتی ہے۔


عصر سے مغرب تک کا وقت قربت الٰہی کا محبوب وقت ہے۔
اس وقت میں جھوٹی قسم کی جوکہ کبیرہ گنا ہے۔
برائی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔


امام المسلمین سے حق وعدل کے امور میں ہرحال میں وفا کرنا واجب ہے۔
خواہ اس کی طرف سے کچھ ملےنہ ملے۔
موجودہ دور میں سیاسی غیر سیاسی اور بعض مذہبی لوگوں میں بھی وابستگیاں بدلنے کا رواج عام ہوگیا ہے، اب سیاسی وابستگی کی بنیاد نہ اس بات پر ہے کہ مقصد اور نظریہ ایک ہے نہ اس بات پر کہ پختہ عہد معاہدے ہوچکے ہیں۔
جن کو چھوڑنا برائی ہے۔
اب صرف مفادات کو پیش نظر رکھ کر لوگ خود کومنڈی میں پیش کردیتے ہیں۔


صحیحین کی روایت ہے کہ جھوٹی قسم سے مال تو بک جاتا ہے۔
مگر برکت اٹھ جاتی ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2087 و صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1606)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3474   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 297  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
فََضْلٌ:
ضرورت و حاجت سے زائد چیز۔
(2)
فَلَاةٌ:
بیابان،
جنگل۔
(3)
إِمَامٌ:
حکمران،
امیر۔
فوائد ومسائل:
پانی ایک عام ضرورت کی چیز ہے جس پر انسان کی زندگی کا انحصار ہے،
کسی ضرورت مند اور محتاج کو اس سے بلا اپنی ضرورت وحاجت کے محروم کرنا اس کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے،
اس لیے یہ شدید جرم ہے۔
جو لوگ،
غذاؤں اور ادویہ میں ملاوٹ کرکے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں،
انہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔
جھوٹ بولنا ایک سنگین جرم ہے اور عصر کا وقت ایک خیر وبرکت والا ہے،
ایسے وقت جھوٹ بول کر سامان بیچنا تین جرائم کا مجموعہ ہے۔
(1)
جھوٹ۔
(2)
گاہک کےساتھ دھوکا۔
(3)
اور وقت کی حرمت وتقدس کی پامالی پھر جھوٹ بھی اللہ کی قسم کھا کر،
گویا اللہ کی عظمت ومقام کا احساس ہی نہیں۔
آج اس جرم کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا اور اپنے نفس کو فریب دینے کےلیے اس کے لیے مختلف حیلے اور بہانے نکالے جاتے ہیں۔
امام وامیر اپنے مقام ومنصب کی بنا پر اطاعت کا حقدار ہے،
لیکن اطاعت کو اپنے مفاد پر موقوف کرنا اس کو بلیک میل کرنا ہے اور اس کو اس بات کی ترغیب دینا ہے کہ تم بھی اپنے مفاد کے لیے خوب کھیل اور گل کھلاؤ اور آج اس حرکت کا چال چلن عام ہے،
اس لیے کوئی بھی حکومت صحیح طریقے پر نہیں چلتی اورنا کامی سے دوچارہوتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 297