صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
47. باب غِلَظِ تَحْرِيمِ قَتْلِ الإِنْسَانِ نَفْسَهُ وَإِنَّ مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِي النَّارِ وَأَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ:
باب: خودکشی کرنے کی سخت حرمت کا بیان، اور جو شخص خودکشی کرے گا اس کو آگ کا عذاب دیا جائے گا، اور جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہو گا۔
حدیث نمبر: 306
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ ، حَيٌّ مِنَ الْعَرَبِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْتَقَى هُوَ وَالْمُشْرِكُونَ فَاقْتَتَلُوا، فَلَمَّا مَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَسْكَرِهِ، وَمَالَ الآخَرُونَ إِلَى عَسْكَرِهِمْ، وَفِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ لَهُمْ شَاذَّةً، إِلَّا اتَّبَعَهَا يَضْرِبُهَا بِسَيْفِهِ، فَقَالُوا: مَا أَجْزَأَ مِنَّا الْيَوْمَ أَحَدٌ، كَمَا أَجْزَأَ فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ "، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا صَاحِبُهُ أَبَدًا، قَالَ: فَخَرَجَ مَعَهُ، كُلَّمَا وَقَفَ وَقَفَ مَعَهُ، وَإِذَا أَسْرَعَ أَسْرَعَ مَعَهُ، قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ بِالأَرْضِ، وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَي سَيْفِهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: الرَّجُلُ الَّذِي ذَكَرْتَ آنِفًا أَنَّهُ مِنَ أَهْلِ النَّار، فَأَعْظَمَ النَّاسُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: أَنَا لَكُمْ بِهِ، فَخَرَجْتُ فِي طَلَبِهِ، حَتَّى جُرِحَ جُرْحًا شَدِيدًا، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نَصْلَ سَيْفِهِ بِالأَرْضِ، وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لِيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لِيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ".
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں کا آمنا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لشکر گاہ کی طرف پلٹے او ر فریق ثانی اپنی لشکر گاہ کی طرف مڑا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والوں میں سےایک آدمی تھا جودشمنوں (کی صفوں) سے الگ رہ جانے والوں کو نہ چھوڑتا، ان کا تعاقب کرتا اور انہیں اپنی تلوار کا نشانہ بنا دیتا، لوگوں نے کہا: آج ہم نے میں سے فلاں نے جو کردکھایا کسی اور نے نہیں کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص اہل جہنم میں سے ہے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں مستقل طور پر اس کے ساتھ رہوں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ آدمی اس کے ہمراہ نکلا۔ جہاں وہ ٹھہرتا وہیں یہ ٹھہر جاتا اور جب وہ اپنی رفتار تیز کرتا تو اس کے ساتھ یہ بھی تیز چل پڑتا۔ (آخر کار) وہ آدمی شدید زخمی ہو گیا، اس نے جلد مر جانا چاہا تو اس نے اپنی تلوار کا اوپر کا حصہ (تلوار کا دستہ) زمیں پر رکھا اور اس کی دھار اپنی چھاتی کے درمیان رکھی، پھر اپنی تلوار سے اپنا پورا وزن ڈال کر خودکشی کر لی۔ وہ (پیچھا کرنے والا) آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا ہوا؟ تو اس نے کہا، وہ آدمی جس کے بارے میں آپ نے ابھی بتایا تھا کہ و ہ دوزخی ہے اور لوگوں سے اسے غیر معمولی بات سمجھا تھا۔ اس پر میں نے (لوگوں سے) کہا: میں تمہارے لیے اس کا پتہ لگاؤں لگا۔ میں اس کے پیچھے نکلا یہاں تک کہ وہ شدید زخمی ہو گیا اور اس نے جلدی مر جانا چاہا تو اس نے اپنی تلوار کا اوپر کا حصہ (دستہ) زمین پر اور اس کی دھار چھاتی کے درمیان رکھی، پھر اس پر اپنا پورا بوجھ ڈال دیا اور خود کو مار ڈالا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو نظر آتا ہے کہ کوئی آدمی جنتیون کے سے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور لوگوں کو نظر آتا ہے کہ کوئی آدمی دوزخیوں کے سے کام کرتا ہے حالانکہ (انجام کار) وہ جنتی ہوتا ہے۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں کا آمنا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کی طرف پلٹے اور فریقِ ثانی اپنے لشکر کی طرف جھکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں ایک آدمی تھا جو دشمن سے الگ ہونے والے کا تعاقب کرتا اور اپنی تلوار سے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتا، لوگوں نے کہا، آج جس قدر اس نے کام کیا ہے (مسلمانوں کو فائدہ پہنچایا) اس قدر کسی نے نفع نہیں پہنچایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے باوجود یہ دوزخی ہے۔ تو لوگوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں ہر وقت اس کے ساتھ رہوں گا۔ تو وہ اس کے ہمراہ نکلا، جہاں وہ ٹھہرتا وہیں وہ ٹھہر جاتا اور جب وہ تیز رفتاری اختیار کرتا تو وہ بھی تیز چل پڑتا۔ وہ آدمی شدید زخمی ہو گیا اس نے جلد موت چاہی اور اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھا اور اس کی دھار اپنی چھاتی پر پھر اپنی تلوار پر پورا وزن ڈال کر خود کشی کر لی، تو دوسرا آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: میں آپ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں! آپ نے پوچھا: کیا سبب ہے؟ تو اس نے کہا: وہ آدمی جس کے بارے میں آپ نے ابھی بتایا تھا: کہ وہ دوزخی ہے اور لوگوں پر یہ بات گراں گزری تھی تو میں نے لوگوں کو کہا تھا میں اس کے انجام کو جاننے کا ذمہ لیتا ہوں۔ میں اس کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ وہ شدید زخمی ہو گیا، تو اس نے جلد موت چاہی، اس کے لیے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھا اور اس کی دھار اپنے دونوں پستانوں کے درمیان رکھی پھر اس نے بوجھ ڈال دیا اور خود کشی کر لی۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی جنتیوں والے کام کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگوں کو نظر آتا ہے یعنی ظاہری اعتبار سے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے، اور ایک دوسرا آدمی لوگوں کو نظر آنے کے اعتبار سے دوزخیوں والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه)) في المغازی، باب: غزوة برقم (3966) وفي الجهاد، باب: لا يقول فلان شهيد برقم (2742) والمولف ((مسلم)) في القدر، باب: كيفية الخلق الآدمي في بطن امه، وكتابة رزقه واجله وعمله، وشقاوته وسعادته مختصراً برقم (6683) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (4780 و 4287)»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 83  
´تقدیر کا غالب آنا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن سهل بن سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجنَّة وَإنَّهُ من أهل النَّار وَإِنَّمَا الْعمَّال بالخواتيم» . . .»
. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندہ جہنمیوں کا کام کرتا ہے اور دراصل وہ جنتی لوگوں میں سے ہوتا ہے اور (بعض لوگ) جنتیوں کے سے کام کرتے ہیں اور وہ درحقیقت دوزخی لوگوں میں سے ہوتے ہیں، پس اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ مسلم بخاری نے روایت کیا ہے۔ (یعنی مرنے کے وقت اگر جنتیوں کے کام پر مرا ہے تو جنتی لوگوں میں سے ہے اور اگر مرنے کے وقت دوزخیوں کے کام پر مرا ہے تو دوزخی لوگوں میں سے ہے۔) واللہ اعلم . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 83]

تخریج:
[صحيح بخاري 6607]،
[صحيح مسلم 306]

فقہ الحدیث:
➊ جس کا خاتمہ بالخیر ہو گا وہی کامیاب اور اللہ کے فضل و کرم سے جنت کا حقدار ہے۔
➋ کفر و شرک سے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
➌ اعمال کا اعتبار خاتمے پر ہے، والے الفاظ صحیح مسلم میں نہیں ہیں، بلکہ صرف صحیح بخاری میں ہیں۔
➍ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت نیک اعمال اور صحیح عقیدے والا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ کب موت کا فرشتہ آ جائے اور دنیا سے روانگی ہو جائے۔
➎ تقدیر کا سہارا لے کر گناہ کا ارتکاب کرنا، عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔
➏ اللہ سے ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ اپنے فضل و کرم سے دعا مانگنے والے کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔
➐ اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرنا چاہئیے۔
➑ مومن کی پوری زندگی خوف اور امید کے درمیان ہوتی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 83   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 306  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شاذة:
لوگوں سے الگ ہونے والا انفاذۃ اکیلا،
تنہا۔
(2)
اجزأمنا:
ہمارے کام آیا،
ہمارے لیے کافی ہوا اور ہمیں فائدہ پہنچایا۔
(3)
لايدع احد:
وہ بہت جری اور بہادر ہے ہر ایک پر غلبہ پا لیتا ہے۔
(4)
انا صاحبه:
میں اس کے ساتھ رہوں گا۔
(5)
نصل:
پھل۔
(6)
ذباب:
دھار۔
(7)
اعظم الناس ذالك:
لوگوں نے اس کو بہت بڑا خیال کیا۔
لوگوں پر یہ بات نہایت شاق گزری۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 306