صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
52. باب مَخَافَةِ الْمُؤْمِنِ أَنْ يَحْبَطَ عَمَلُهُ:
باب: مومن کا اپنے اعمال ضائع ہونے سے ڈرنا۔
حدیث نمبر: 314
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ سورة الحجرات آية 2 إِلَى آخِرِ الآيَةِ، جَلَسَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ فِي بَيْتِهِ، وَقَالَ: " أَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَمْرٍو، مَا شَأْنُ ثَابِتٍ، اشْتَكَى؟ قَالَ سَعْدٌ: إِنَّهُ لَجَارِي، وَمَا عَلِمْتُ لَهُ بِشَكْوَى، قَالَ: فَأَتَاهُ سَعْدٌ، فَذَكَرَ لَهُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ثَابِتٌ: أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنَا مِنَ أَهْلِ النَّارِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّة ".
حماد بن سلمہ نے ثابت بنانی سے حدیث سنائی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب یہ آیت اتری: ﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ﴾ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اونچی مت کرو۔ آیت کے آخر تک۔ تو ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اپنےگھر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے: میں تو جہنمی ہوں۔ انہوں نے (خودکو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی خدمت میں حاضر ہونے) سے بھی روک لیا، رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ابو عمرو! ثابت کو کیا ہوا؟ کیا و ہ بیمار ہیں؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرے پڑوسی ہیں اورمجھے ان کی کسی بیماری کا پتہ نہیں چلا۔ حضرت انس نے کہا: اس کے بعد سعد، ثابت رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتائی تو ثابت کہنے لگے: یہ آیت اتر چکی ہے اور تم جانتے ہو کہ تم سب میں میری آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے زیادہ بلند ہے، اس بنا پر میں جہنمی ہوں۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اس (جواب) کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ وہ تو اہل جنت میں سے ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے بتایا جب یہ آیت اتری: اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو(آیت کے آخرتک)۔ تو ثابت بن قیس ؓ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے میں تو دوزخی ہوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے رک گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ ؓ سے پوچھا: اے ابو عمرو! ثابت کو کیا ہوا؟ کیا وہ بیمار ہے؟ سعدؓ نے جواب دیا: وہ میرا پڑوسی ہے اور مجھے اس کی بیماری کا علم نہیں ہے۔ اس کے بعد سعد ؓ ثابت ؓ کے پاس آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنائی تو ثابتؓ نے جواب میں کہا یہ آیت اتر چکی ہے اور تم جانتے ہو میری آواز تم سب کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند ہے، اس بنا پر میں جہنمی ہوں، اس جواب کا ذکر سعدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں وہ تو جنتی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (343)»
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 314  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر رسول اللہ ﷺ کی آواز سے شعوری طور پر آواز بلند کرنا حبط اعمال کا باعث ہے،
تو آپ کے پیغام اور آپ کےحکم پر اپنے یا کسی کے قول وفعل کو ترجیح دینا کیسے روا ہو سکتا ہے۔
حضرت ثابت بن قیسؓ خطیب انصار تھے اور ان کی آواز طبعی طور پر بلند تھی،
وہ اپنی بات منوانے کے لیے آواز میں زور اور بلندی پیدا نہیں کرتے تھے کہ یہ چیز رسول اللہ ﷺ کی گستاخی اور بے ادبی ہو اور اس سے آپ کے دل میں تکدر وملال پیدا ہو،
جس کی بنا پر انسان کے اعمال ضائع ہوجائیں۔
چونکہ ان کی آواز طبعی طور پر بلند کرتے نہیں تھے،
اس لیے آپ کی اذیت وتکلیف کا باعث نہ تھی،
اس لیے آپ نے فرمایا:
اس کے عمل رائیگاں نہیں،
اس لیے وہ جنتی ہے اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ آپ کو جنتیوں اور دوزخیوں کا علم تھا،
اگر آپ کو سب کا علم تھا،
تو صرف چند صحابہ کے بارے میں یہ بات کیوں فرمائی؟۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 314