صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
53. باب هَلْ يُؤَاخَذُ بِأَعْمَالِ الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: کیا اعمال جاہلیت پر مؤاخذہ ہو گا؟
حدیث نمبر: 318
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ أُنَاسٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: " أَمَّا مَنْ أَحْسَنَ مِنْكُمْ فِي الإِسْلَامِ، فَلَا يُؤَاخَذُ بِهَا، وَمَنْ أَسَاءَ، أُخِذَ بِعَمَلِهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالإِسْلَامِ ".
منصور نے ابو وائل سے اور انہوں نے حضر ت عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا جاہلیت کےاعمال پر ہمارا مواخذہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس نے اسلام لانے کے بعد اچھے عمل کیے، اس کا جاہلیت کے اعمال پر مواخذہ نہیں ہو گا اور جس نے برے اعمال کیے، اس کا جاہلیت اور اسلام دونوں کے اعمال پر مؤاخذہ ہو گا۔
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہمارے جاہلیت کے عملوں پر مواخذہ ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے اسلام لانے کے بعد اچھے اعمال کیے اس کے جاہلیت کے اعمال کا مواخذہ نہیں ہوگا، اور جس نے برے عمل کیے اس کے جاہلیت اور اسلام دونوں کے اعمال کا مواخذہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، البخاري في ((صحيحه)) في استتبابة المرتدين، باب: اثم من اشرك بالله وعقوبته في الدنيا والآخرة برقم (6523) انظر ((التحفة)) برقم (9303)»
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6921  
´حقیقی مسلمان بنا کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں`
«. . . قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟، قَالَ: مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَنْ أَسَاءَ فِي الْإِسْلَامِ أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ . . .»
. . . ایک شخص (نام نامعلوم) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے جو گناہ (اسلام لانے سے پہلے) جاہلیت کے زمانہ میں کیے ہیں کیا ان کا مواخذہ ہم سے ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اسلام کی حالت میں نیک اعمال کرتا رہا اس سے جاہلیت کے گناہوں کا مواخذہ نہ ہو گا (اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا) اور جو شخص مسلمان ہو کر بھی برے کام کرتا رہا اس سے دونوں زمانوں کے گناہوں کا مواخذہ ہو گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6921]

فہم الحديث:
اس حدیث کا مفہوم جو محققین کی جماعت نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص نے ظاہر و باطن کے ساتھ اسلام قبول کیا اور حقیقی مسلمان بنا، اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ «الإِسْلَامَ يَهْدِمُ، ‏‏‏‏‏‏مَا كَانَ قَبْلَهُ» [مسلم: 121]
اور جس نے بظاہر تو اسلام قبول کیا مگر دل سے اسلام قبول نہ کیا تو یہ شخص منافق ہے اور اپنے کفر پر باقی ہے، اس سے اظہار اسلام کے بعد کے گناہوں کے ساتھ ساتھ جاہلیت کے گناہوں کا بھی مواخذہ کیا جائے گا۔ [شرح مسلم للنوي: 200/2]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 75   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4242  
´گناہوں کو یاد کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم سے ان گناہوں کا بھی مواخذہ کیا جائے گا، جو ہم نے (زمانہ) جاہلیت میں کئے تھے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے عہد اسلام میں نیک کام کئے (دل سے اسلام لے آیا) اس سے جاہلیت کے کاموں پر مواخذہ نہیں کیا جائے گا، اور جس نے اسلام لا کر بھی برے کام کئے، (کفر پر قائم رہا ہے) تو اس سے اول و آخر دونوں برے اعمال پر مواخذہ کیا جائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4242]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے۔
اسلام سے پہلے (گناہوں)
کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، باب کون الأسلام یھدم ما قبله۔
۔
۔
، حدیث: 121)

جو شخص خلوص دل کے ساتھ اسلام قبول کرتا ہے۔
اس کے جاہلیت کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

(2)
جو شخص اسلام قبول کرنے کے بعد بھی جاہلیت کی عادتیں اور بداعمالیاں ترک نہیں کرتا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا۔
اس لئے اس کے سابقہ گناہ معاف نہیں ہوتے۔

(3)
جو شخص خلوص سے اسلام قبول کرتا ہے۔
پھر اس سے بتقاضائے بشریت کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے۔
اس سے زمانہ کفر کے اعمال کا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔
کیونکہ مسلمان کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوجاتا۔
جن صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ایسے گناہ سر زد ہوئے۔
ان پر حد نافذ ہوئی نبی کریمﷺ نے ان کا جنازہ پڑھا اور ان کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی۔

(4)
مسلمان کو صحیح مسلمان بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تاکہ اس کے گناہ معاف ہوجایئں اوراسے جنت میں اعلیٰ مقام حاصل ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4242   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 318  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اسلام لانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے کفر کے اعمال سے باز آجائے،
اس لیے اسلام لانے سے تمام سابقہ اعمال معاف ہو جاتے ہیں۔
ایک انسان ایمان لانے کے بعد بھی اگر سابقہ اعمال سے باز نہیں آتا تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ظاہری طور پر مسلمان ہوا ہے،
اس نے حقیقی طور پر اسلام کو قبول نہیں کیا،
اس لیے اس کا تمام اعمال پر مواخذہ ہوگا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 318