صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
61. باب وَعِيدِ مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ مُسْلِمٍ بِيَمِينٍ فَاجِرَةٍ بِالنَّارِ:
باب: جھوٹی قسم کھاکر کسی مسلمان کا حق مارنے پر جہنم کی وعید۔
حدیث نمبر: 358
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، وَأَبُو عاصم الحنفي وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ، وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ، إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي، كَانَتْ لِأَبِي، فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي فِي يَدِي، أَزْرَعُهَا لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ: أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَكَ يَمِينُهُ؟ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَى مَا حَلَفَ عَلَيْهِ، وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: لَيْسَ لَكَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِك؟ فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ: " أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالِهِ لِيَأْكُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ ".
سماک نے علقمہ بن وائل سے، انہوں نے اپنے والد (حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک آدمی حضر موت سے اور ایک کندہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔حضرمی (حضر موت کے باشندے) نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میری زمین پر قبضہ کیے بیٹھا ہے جومیرے باپ کی تھی۔ اور کندی نے کہا: یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے، میں اسے کاشت کرتا ہوں، اس کا اس (زمین) میں کوئی حق نہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے کہا: کیا تمہاری کوئی دلیل (گواہی وغیرہ) ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تمہارے لیے اس کی قسم ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلاشبہ یہ آدمی بدکردار ہے، اسے کوئی پرواہ نہیں کہ کس چیز پر قسم کھاتا ہے او ریہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا: تمہیں اس سے اس (قسم) کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔ وہ قسم کھانے چلا اور جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ اگر اس نے ظلم اور زیادتی سے اس شخص کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو بلاشبہ یہ شخص اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ نے اس سے اپنا رخ پھیر لیا ہو گا۔
علقمہ بن وائلؒ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں: کہ ایک حضر موت کا آدمی اور ایک کندہ کا آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے حضرمی نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! یہ میری، میرے باپ کی طرف سے زمین پر قبضہ کر بیٹھا ہے۔ تو کندی نے کہا: یہ زمین میری ہے، میرے قبضہ میں ہے، میں اسے کاشت کرتا ہوں، اس کا اس میں کچھ حق نہیں ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے کہا: کیا تیرے پاس گواہ ہے؟ اس نے کہا نہیں! آپؐ نے فرمایا: تم اس سے قسم لے سکتے ہو؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! یہ آدمی بدکار ہے، اسے کوئی پروانہیں کس قسم کی قسم اٹھاتا ہے، کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا: تم اس سے اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتے۔ وہ قسم اٹھانے لگا، تو جب قسم کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اللہ کی قسم! اگر اس نے ظلماً اس کا مال کھانے کے لیے قسم اٹھائی، تو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في الايمان والنذور، باب: التغليظ في الايمان الفاجرة برقم (3245) وفي الاقضية، باب: الرجل يحلف على علمه فيما غاب عنه برقم (3623) والنسائي في ((جامعه)) في الاحکام، باب: ما جاء فى ان البينة على المدعى واليمين على المدعى عليه۔ وقال: حديث وائل بن حجر۔ وقال: حسن صحيح - برقم (1340) انظر ((التحفة)) برقم (11768)»
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3245  
´جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کر لینا کیسا ہے؟`
وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضر موت کا ایک شخص اور کندہ کا ایک شخص دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول! اس شخص نے میرے والد کی ایک زمین مجھ سے چھین لی ہے، کندی نے کہا: واہ یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے میں خود اس میں کھیتی کرتا ہوں اس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا: کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو تمہارے لیے اس کی جانب سے قسم ہے (جیسی وہ قسم کھا لے اسی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3245]
فوائد ومسائل:

کسی مقدمہ کے طرفین جس میں کسی صالح کے متعلق گمان ہو کہ سچ کہنا ہوگا۔
اورکسی فاسق کے متعلق یہ وہم ہو کہ یہ جھوٹا ہوگا۔
قاضی کے رو برو برابر ہوتے ہیں۔
ان کا فیصلہ شرعی اصولوں کے تحت ہی ہوگا۔
کہ مدعی گواہ پیش کرے۔
یا مدعا علیہ قسم کھائے۔
(خطابی)
کسی تنازع (جھگڑے) میں طرفین کا ایک دوسرے کو جھوٹ خیانت یا ظلم وغیرہ سے مہتم کرنا ایسی باتیں ہوتی ہیں۔
کہ ان کے متعلق کوئی دعویٰ قبول نہیں کیا جاسکتا۔
(خطابی)
مدعا علیہ کسی بھی دین وملت سے تعلق رکھتا ہو اس سے قسم لی جائے گی جو تسلیم ہوگی۔

جھوٹی قسم کا عتاب انتہائی شدید ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3245