صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
64. باب رَفْعِ الأَمَانَةِ وَالإِيمَانِ مِنْ بَعْضِ الْقُلُوبِ وَعَرْضِ الْفِتَنِ عَلَى الْقُلُوبِ:
باب: بعض دلوں سے امانت اور ایمان کے اٹھ جانے کا، اور دلوں پر فتنوں کے آنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 367
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ، قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الآخَرَ، حَدَّثَنَا أَنَّ الأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ، ثُمّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الأَمَانَةِ، قَالَ: " يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ، فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ أَخَذَ حَصًى فَدَحْرَجَهُ عَلَى رِجْلِهِ، فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لَا، يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ، حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، حَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ: مَا أَجْلَدَهُ، مَا أَظْرَفَهُ، مَا أَعْقَلَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنَ إِيمَانٍ، وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ، وَمَا أُبَالِي أَيَّكُمْ بَايَعْتُ، لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ دِينُهُ، وَلَئِنْ كَانَ نَصْرَانِيًّا أَوْ يَهُودِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، وَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ مِنْكُمْ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا ".
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے زید بن وہب سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو باتیں بتائیں، ایک تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے ہمیں بتایا: امانت لوگوں کے دلوں کے نہاں خانے میں اتری، پھر قرآن اترا، انہوں نے قرآن سے سیکھا اور سنت سے جانا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں امانت اٹھالیے جانے کے بارے میں بتایا، آپ نے فرمایا: آدمی ایک بار سوئے گا تو اس کے دل میں امانت سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا، پھر وہ ایک نیند لے گا تو (بقیہ) امانت اس کے دل سے سمیٹ لی جائے گی اور اس کا نشان ایک آبلے کی طرح رہ جائے گا جیسے تم انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکاؤ تو (وہ حصہ) پھول جاتا ہے اور تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو، حالانکہ اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر آپ نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا۔پھر لوگ خرید و فروخت کریں گے لیکن کوئی بھی پوری طرح امانت کی ادائیگی نہ کرے گا یہاں تک کہ جائے گا: فلاں خاندان میں ایک آدمی امانت دار ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ کسی آدمی کے بارے میں کہا جائے گا، وہ کس قدر مضبوط ہے، کتنا لائق ہے، کیسا عقل مند ہے! جبکہ اس کے دل میں رائے کے دانے کے برابر (بھی) ایمان نہ ہو گا۔ (پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا:) مجھ پر ایک دو گزرا، مجھے پروا نہیں تھی کہ میں تم سے کس کے ساتھ لین دین کروں، اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دین اس کو میرے پا س واپس لے آئے گا اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہے تو اس کا حاکم اس کو میرے پاس لے آئے گا لیکن آج میں فلاں اور فلاں کے سوا تم میں سے کسی کے ساتھ لین دین نہیں کر سکتا۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں سنائیں ایک تو میں دیکھ چکا ہوں (پوری ہو چکی ہے) اور دوسری کا میں منتظر ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اُتری، پھر قرآن اترا تو انھوں نے قرآن جانا اور سنّت سے جانا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسری حدیث) امانت کے اٹھنے کے بارے میں بیان فرمائی، فرمایا: ایک آدمی تھوڑی دیرسوئے گا تو اس کے دل سے امانت قبض کر لی جائے گی، اور اس کا نشان ایک پھیکے رنگ کی طرح رہ جائے گا۔ پھر وہ کچھ وقت کے لیے سوئے گا تو امانت اس کے دل سے قبض کر لی جائے گی، اور اس کا نشان آبلہ کی طرح رہ جائے گا، جیسا کہ تم انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکا دو تو اس پر آبلہ بن جائے، تو تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو اور اس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لی اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکا دیا۔ تو پھر لوگ خرید فروخت کریں گے، تو ان میں سے کوئی ایسا نہیں ملے گا جو امانت ادا کرے یہاں تک کہ لوگ کہیں گے: فلاں خاندان میں ایک امانت دار آدمی ہے، یہاں تک کہ ایک آدمی کے بارے میں کہا جائے گا وہ کس قدر بیدار مغز، خوش مزاج اور عقل مند ہے۔ اور اس کی تعریف و توصیف کریں گے اور اس کے دل میں رائی کے دانے کے بقدر ایمان نہیں ہو گا۔ حذیفہ ؓ کہتے ہیں: مجھ پر ایک دور گزر چکا ہے، کہ مجھے کسی کے ساتھ لین دین کرنے میں کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا دین اس کو میرے ساتھ خیانت کرنے سے روکتا، اور اگر وہ یہودی یا عیسائی ہوتا تو اس کا حاکم اس کو مجھے نقصان پہنچانے سے روکتا، لیکن آج میں تمھارے ساتھ فلاں فلاں کے سوا کسی سے معاملہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى الرقاق، باب: رفع الامانة برقم (6132) وفي ((الفتن)) باب: اذا بقى فى حثالة من الناس برقم (6675) وفى الاعتصام بالكتاب والسنة، باب: الاقتداء بسنن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم برقم (6848) مختصراً- والترمذی فی ((جامعه)) في الفتن، باب: ما جاء فى رفع الامانة برقم (2179) وقال: حديث حسن صحيح۔ وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: ذهاب الامانة برقم (4053) انظر ((التحفة)) برقم (3328)»
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6497  
´آخر زمانہ میں دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا`
«. . . قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ . . .»
. . . فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6497]

لغوی توضیح:
«جَذْر» اصل۔
«الْوكْت» کالا نقطہ۔
«الْمَجْل» چھالا، جو ہاتھ وغیرہ پر زیادہ کام کی وجہ سے نکل آتا ہے۔
«نَفِطَ» بڑا ہونا، بلند ہونا۔
«مُنْتَبراً» پھولا ہوا، بلند۔

فہم الحديث:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی آج ہمیں من و عن مکمل نظر آتی ہے کہ ہر طرف بےایمانی اور بد دیانتی کا بازار گرم ہے، جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی عام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں امانت و دیانت بالکل ختم ہو چکی ہے بلکہ امانت دار آج بھی موجود ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر، اکثریت بےایمانوں کی ہی ہے۔ «العياذ بالله»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 87   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4053  
´امانت کے ختم ہو جانے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی)، (طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دیانت داری مسلمان کے کردار کی ایک اہم صفت ہے۔

(2)
سوتے ہوئے دل سے دیانت داری کا وصف ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں یہ صفت بہت تیزی سے معدوم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا ایک ہی وقت میں وہی بددیانت بن جائے گا۔

(3)
آبلےسے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتاہے۔
حالانکہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔
اسی طرح لوگ بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کے دل نیکی خالی ہوں گے۔

(4)
غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا فریب ایک خوبی سمجھا جاتا اور اس کی تعریف کی جاتی ہے۔
مسلمانوں کو ایسے نہیں ہونا چاہیے۔

(5)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد افراد بہت کم رہ گئے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4053   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2179  
´امانت کے اٹھا لیے جانے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ۱؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا ظہور ہوچکا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی،
اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہواکہ قرآن کی تشریح وتفسیرخود قرآن سے اورپھرسنت وحدیث نبوی سے سمجھنی چاہئے،
اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہےچوتھے درجہ میں تابعین وتبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث (2156) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔

3؎:
یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہوجاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہوگا،
گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہ کے برابر رہ گئی تھی،
کیوں کہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2179   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 367  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
الْأَمَانَةُ:
دیانت یہاں مراد وہ ذمہ داری اور تکلیف ہے جس کا انسان مکلف ہے،
اور سورۃ احزاب کی اس آیت ﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ہم نے آسمانوں اور زمین پر ذمہ داری اور تکلیف پیش کی ہے۔
(2)
جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ:
جذر جیم پر زبر اور زیر دونوں پڑھے جا سکتے ہیں،
یعنی جڑ اور اصل۔
(3)
الْوَكْتُ:
ہلکا نشان جو سیاہی مائل ہوتا ہے۔
(4)
مَجْلٌ:
میم پر زبر ہے اور جیم پر زیر اور سکون دونوں آ سکتے ہیں،
کلہاڑا یا کَسی وغیرہ سے کام کرنے کے نتیجہ میں جو آبلہ ہاتھوں پر ابھر آتا ہے۔
(5)
نَفِطَ:
فاء پر زیر ہے،
چمڑے اور گوشت کے درمیان پیدا ہونے والا پانی۔
(6)
مُنْتَبِرًا:
ابھرا ہوا،
اس سے منبر ہے۔
(7)
مَا أَجْلَدَهُ:
جلادۃ سے ماخوذ ہے،
صلاحیت و استحکام کو کہتے ہیں،
طاقتور اور صابر انسان یا عقلمند،
کس قدر بہادر اور دلیر ہے،
یا مضبوط اور طاقتور ہے،
یا ذہین و فطین ہے۔
(8)
مَا أَظْرَفَهُ:
ظرافت:
دانشمندی،
مہارت و حذاقت،
کس قدر حاذق،
ماہر ہے یا ہوشیار ہے۔
فوائد ومسائل:
(1)
پاس عہد اورتکلیف وذمہ داری کا احساس انسان کی فطرت اورسرشت میںرکھا گیا ہے،
اور انسان طبعی اور فطری طور پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت وربوبیت کا پابند سمجھتا ہے،
قرآن وسنت سے اس کو مزید تقویت اور تائید حاصل ہوتی ہے۔
(2)
آہستہ آہستہ انسان اپنی فطرت اور سرشت سے بٹتا جاتا ہے اور اس کی فطرت مسخ ہو جاتی ہے جس سے احساس ذمہ داری ختم ہوتا جاتا ہے،
اور دل میں سیاہی اور تاریکی طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے،
او ر آخر کار یہ پاس عہد بالکل ختم ہوجاتا ہے اور اس آبلے کی طرح ہوجاتا ہے جس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔
آج کل لوگوں کی اکثریت کی یہی حالت ہے کہ ان کے اندر احساس ذمہ داری ختم ہوچکا ہے،
قرآن وسنت کی پابندی وپاسداری عملا دن بدل مفقود ہو رہی ہے اور ان کی دین میں مد معاملگی بڑھ رہی ہے۔
(3)
جب ذمہ داری اورتکلیف کی پاسدار ختم ہوگی تو انسان کی تعریف وتوصیف کا مدار،
علم وعمل یا تقویٰ ودیانت نہیں رہے گی،
بلکہ مال ودولت کی کثرت،
دلیری وشجاعت اورفصاحت وبلاغت وعہدہ ومنصب باعث مدح بنیں گے،
اور آج کل یہ صورت ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 367