صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
67. باب جَوَازِ الاِسْتِسْرَارِ لِلْخَائِفِ:
باب: خوف زدہ کے لیے ایمان کو پوشیدہ رکھنے کا جواز۔
حدیث نمبر: 377
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، اللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَال: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَحْصُوا لِي كَمْ يَلْفِظُ الإِسْلَامَ؟ قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَخَافُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ مَا بَيْنَ السِّتِّ مِائَةِ إِلَى السَّبْعِ مِائَةِ؟ قَالَ: " إِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ لَعَلَّكُمْ أَنْ تُبْتَلَوْا، قَالَ: فَابْتُلِيَنَا حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا لَا يُصَلِّي إِلَّا سِرًّا ".
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا: میرے لیے شمار کرو کہ کتنے (لوگ) اسلام کے الفاظ بولتے ہیں (اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں؟) حذیفہ نے کہا: تب ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو ہم پر (کوئی مصیبت نازل ہو جانے کا) خوف ہے جبکہ ہم چھ سات سال سو کے درمیان ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم نہیں جانتے، ہو سکتا ہے تم کسی آزمائش میں ڈال دیے جاؤ۔ پھر ہم آزمائش میں ڈال دیے گئے یہاں تک کہ ہم میں سے کوئی شخص پوشیدہ رہے بغیر نماز بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اسلام کے نام لیوا لوگوں کی تعداد گن کر بتاؤ۔ تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا آپ کو ہمارے بارے میں اندیشہ ہے؟ اور ہماری تعداد چھ سات سو کے درمیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھیں پتہ نہیں شاید تم آزمائش میں ڈال دیے جاؤ۔ پھر ہم آزمائش میں مبتلا ہو گئے، یہاں تک کہ ہم میں بعض لوگ نماز بھی چھپ کر پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجهاد، باب: كتابة الامام الناس برقم (3060 و 3061) وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: الصبر علی البلاء برقم (4029) انظر ((التحفة)) برقم (3338)»
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3060  
´خلیفہ اسلام کی طرف سے مردم شماری کرانا`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالْإِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگ اسلام کا کلمہ پڑھ چکے ہیں ان کے نام لکھ کر میرے پاس لاؤ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 3060]

فہم الحدیث:
حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ عہد نبوی میں تو ہم ڈیڑھ ہزار ہونے پر بے خوف ہو گئے تھے اور اب ہزاروں لاکھوں ہونے کے باوجود حق بات کہنے سے ڈرتے ہیں۔ کچھ تو ڈر کے مارے نماز بھی گھر میں ہی پڑھ لیتے ہیں۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس وقت کہی جب ولید بن عقبہ، عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا اور نمازیں اتنی دیر سے پڑھتا کہ معاذ اللہ۔ آخر بعض متقی لوگ اول وقت نماز پڑھ لیتے اور پھر اس کے ڈر سے جماعت میں بھی شریک ہو جاتے۔ [ماخوذ از شرح بخاري، مولانا داود راز تحت الحديث 3060]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 90   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4029  
´آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام مسلمانوں کی تعداد شمار کر کے مجھے بتاؤ، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ ہم پر (اب بھی دشمن کی طرف سے) خطرہ محسوس کرتے ہیں، جب کہ اب ہماری تعداد چھ اور سات سو کے درمیان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ نہیں جانتے شاید کہ تم آزمائے جاؤ۔‏‏‏‏ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو واقعی ہم آزمائے گئے، یہاں تک کہ ہم میں سے اگر کوئی نماز بھی پڑھتا تو چھپ کر پڑھتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4029]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مردم شماری کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ افرادی قوت کا صحیح اندازہ ہوجاتا ہے۔

(2)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی پر اس قدر توکل تھا کہ چھ سات سو کی تعداد ہوتے ہوئے خود کو ناقابل شکست سمجھتے تھے۔

(3)
زیادہ تعداد کے باوجود آزمائش آ سکتی ہے۔
اس لیے اللہ سے مدد مانگتے رہنا چاہیے اور آزمائش میں ثابت قدم رہنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4029   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 377  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ کی پیش گوئی کے مطابق آپ کی وفات کے بعد ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ بعض لوگوں کو نماز بھی (جو ایمان کی ظاہری اور محسوس علامت ہے)
چھپ کر پڑھنا پڑتی تھی،
کیونکہ نماز کو امن وجنگ کسی حالت میں بھی چھوڑا نہیں جاسکتا،
اور نماز ہی اسلام وایمان کی دائمی نشانی اور علامت ہے،
جو روزانہ پانچ بار ادا کی جاتی ہے۔
کیونکہ بعض گورنر نماز بہت دیر کرکے پڑھاتے تھے،
اس لیے بعض لوگ اپنے طور پر پہلے نماز پڑھ لیتے تھے،
پھر جماعت میں بھی شریک ہوجاتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 377