صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
69. باب زِيَادَةِ طُمَأْنِينَةِ الْقَلْبِ بِتَظَاهُرِ الأَدِلَّةِ:
باب: دلائل کے اظہار سے دل کو زیادہ اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 384
حَدَّثَنَاه عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُوَيْسٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ كَرِوَايَةِ مَالِكٍ بِإِسْنَادِهِ، وَقَالَ: ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ حَتَّى أَنْجَزَهَا.
ابو اویس نے بھی زہری سے اسی طرح روایت کی ہے جس طرح مالک نے کی ہے البتہ اس نے (حتی جازھا) حتی کہ اس سے آگے نکل گئے کے بجائےئ) حتی أنجزہا (حتی کہ اس کو مکمل کیا) کہا ہے۔
امام صاحبؒ مذکورہ بالا روایت دوسری سند سے بھی بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (381)»
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 384  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال کیا تھا ﴿كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ﴾ تو مردوں کو کیسے زندہ فرمائے گا؟ یعنی مردوں کو زندہ کرنا طے ہے،
اور ان کے زندہ کرنے میں کوئی شبہ نہیں ہے،
اس لیے جب اللہ تعالیٰ نے پوچھا:
﴿أَوَلَمْ تُؤْمِن﴾ کیا تجھے مردوں کے زندہ کرنے پر یقین نہیں؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا:
کیوں نہیں یقین ہے۔
سوال یہ تھا:
کہ ان کے زندہ کرنے کی صورت اور کیفیت کیا ہے؟ اس کا مشاہدہ مطلوب ہے،
دلیل اور استدلال سے انسان کو علم حاصل ہو جاتا ہے،
اور وہ یقینی علمی واستدلالی ہوتا ہے۔
لیکن اگر کسی چیز کا مشاہدہ اور معائنہ ہو جائے تو یہ یقینی عینی ہوتا ہے،
جس میں قوت ویقین زیادہ ہوتا ہے،
اس لیے قلبی اطمینان وتسکین بھی بڑھ جاتا ہے۔
جب موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تیری قوم بچھڑے کی پوجا کرنے لگی ہے،
تو ان پر وہ اثر نہیں ہوا جو قوم کو اس شنیع حرکت میں مبتلا دیکھ کر ہوا۔
حدیث میں ہے(لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ)
خبر واطلاع،
معائنہ ومشاہدہ کا مقابلہ نہیں کرتی۔
اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
ابراہیم علیہ السلام کا سوال کسی شک وشبہ کی بنا پر نہ تھا،
اگر ابراہیم کو اس میں شک ہوتا تو یقینا ہمیں بھی شک ہوتا،
جب ہمیں شک نہیں ہے تو ابراہیم علیہ السلام کو شک کیسے ہو سکتا ہے۔
امام زرکشی نے امثال السائرہ کے مصنف کے حوالہ سے نقل کیا ہے:
افعل کا صیغہ کبھی کبھی دونوں چیزوں سے کسی معنی (صفت)
کی نفی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے،
جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ﴾ کیا وہ بہتر ہیں یا قوم تبع۔
مقصد یہ ہے کہ دونوں ہی بھلائی سے محروم اور خالی ہیں۔
یا کہتے ہیں:
(الشیطان خیر من فلان)
فلاں سے شیطان اچھا ہے مقصد یہ ہے دونوں خیر سے خالی ہیں۔
(ارشاد الساری: 5/368)
اس استعمال کے مطابق "نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ" کا معنی ہے ہم میں سے کسی کو شک نہیں ہے۔
نہ ابراہیم علیہ السلام نے شک کیا،
نہ ہمیں شک ہے۔
اس لیے سوال بھی زندہ کرنے کی کیفیت کے بارے میں تھا۔
(فتح الباری:
ج6،
کتاب الانبیاء)

زندہ کرنے کے بارے میں نہ تھا،
کیونکہ زندہ کرنا تو معلوم تھا کیفیت کا پتہ نہیں تھا۔
(2)
يَرْحَمُ اللهُ لُوطًا:
حضرت لوط علیہ السلام کے پاس جب فرشتے،
خوبرو جوانوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے،
اور ان کی قوم اپنی عادت بد کے مطابق ان پر دست درازی کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچ گئی،
اور لوط علیہ السلام نے مہمانوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر ہر قسم کے جتن کرلیے،
لیکن قوم والے باز نہ آئے،
تو انہوں نےمہمانوں کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرنے کےلیے،
انتہائی پریشانی کے عالم میں فرمایا:
اے کاش! آج مجھ میں ذاتی وشخصی طور پر اس قدر طاقت وقوت ہوتی کہ میں کسی کے تعاون کے بغیر اپنے طور پر مہمانوں کا دفاع کر سکتا،
یا مجھے اپنے خاندان اور قوم کی نصرت وحمایت حاصل ہوتی،
تو آج میرے مہمانوں کا دفاع کرکے میری عزت بچاتی۔
کیونکہ یہ لوگ آپ کا اصل خاندان نہیں تھے،
دوسرے لوگوں کی طرف آپ کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا،
اس کی وضاحت وتبیین کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت فرمائے! وہ ایک مضبوط پناہ چاہتے تھے۔
یعنی:
یہاں فعل،
ارادہ فعل کے معنی میں ہے،
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ﴾ جب تم نماز کےلیے اٹھنے کا ارادہ کرو تو نماز سے پہلے وضو کر لو۔
یا فرمایا:
﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ﴾ جب قرآن پڑھنے کا ارادہ کر و تو پہلے "اعوذ باللہ" پڑھ لو۔
یہاں اللہ تعالیٰ کی اعانت ونصرت کی نفی مقصود نہیں ہے کہ ان کو اللہ کی پناہ حاصل نہ تھی،
اور انہوں نے اس پر نعوذ باللہ اعتماد نہ کیا۔
یہ دنیا عالم اسباب ہے،
اور ہر کام ظاہری اسباب کے پردہ میں ہوتا ہے،
ظاہری اسباب ووسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،
وگرنہ رسول اکرم ﷺ کو جنگوں میں زرع پہننے کی ضرورت لاحق نہ ہوتی،
اور دشمن کے مقابلہ میں تیاری کرکے نکلنے کی بھی حاجت نہ ہوتی۔
اور مدینہ میں پہنچ کر خود آپ نے فرمایا تھا «لَيْتَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي صَالِحًا يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ» اے کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی مضبوط آدمی آج رات میری حفاظت کرتا۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
"مَنْ یَکْلَوْنَا اللَّیْلَةَ" (لامع الداری:
ج8/27 حاشیۃ: 9)

آج رات لشکر کی حفاظت کون کرے گا؟ تو کیا آپ کو نعوذ باللہ،
اللہ کی نصرت وحمایت اور حفاظت پر اعتماد نہ تھا؟ چونکہ لوط علیہ السلام کے سامنے اللہ کی نصرت وحمایت تو ایک مسلمہ حقیقت تھی،
اس لیے اس کے اظہار کی ضرورت نہ تھی۔
ظاہری اسباب کے تذکرہ کی ضرورت تھی،
انھی اساب کا انہوں نے تذکرہ فرمایا،
اور ان کے حصول کی خواہش وآرزو کی۔
(3)
لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ:
میں بلانے والے کی آواز پر لبیک کہتا۔
یہ کہہ کر آپ ﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر وثبات اور ان کی ہمت وحوصلہ کی تعریف فرمائی ہے،
کہ انہوں نے بغیر کسی جرم کے ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا،
لیکن اپنی برأت کے اظہار تک،
جیل سے نکلنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
میں اس قدر صبر وتحمل اور استقلال وپامردی کا مجسمہ ہونے کے باوجود،
بادشاہ کے ایلچی کی بات سن کر باہر نکل آتا۔
اور اپنی برأت کے اظہار کا معاملہ پیش نہ کرتا۔
اور یہ بات ظاہر ہے نبی اکرم ﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر وثبات کی تعریف کی خاطر کہی ہے۔
ایک شجاع اوردلیر آدمی کسی کی شجاعت وبسالت کی تعریف کرے تو اس سے اس کی اپنی شجاعت اوردلیری کی نفی نہیں ہوتی،
وہ تو مخاطبین کے نزدیک مسلم ہے،
رستم زماں کسی کی تعریف کرے،
تو کیا اس سے اس کے مقام ومرتبہ میں کسی قسم کی کمی آجائے گی؟ ہرگز نہیں۔
بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے لیے چلے جانا ہی اولیٰ اورارجح تھا،
ٰ کیونکہ ابتلاء اور مصیبت کو دعوت دینا یا اس کو قائم رکھنا مناسب نہیں،
باہر نکل کر ان کو تبلیغ کے زیادہ مواقع میسر آتے۔
تو یہ بات درست نہیں ہے،
یوسف علیہ السلام نے ابتلاء کو دعوت نہیں دی،
نہ اس کو قائم رکھنا چاہا۔
ان کا باہر آنا تو اب طے تھا،
لیکن وہ اپنی عصمت وعزت کی طہارت وصفائی کے بغیر نہیں آنا چاہتے تھے،
کیونکہ الزام تراشی اورتہمت کے ازالہ کے بغیر اگر وہ نکل آتے تو یہ چیز ان کی دعوت وتبلیغ کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بنتی۔
اور پاکدامنی کے ظہور کے بغیر بادشاہ کے سامنے چلے جاتے تو انہیں الزام تراشی کا احساس کھل کر بات کرنے کی جرأت پیدا نہ ہونے دیتا،
اور طہارت کے نتیجہ میں بادشاہ کی نظر میں جو مقامِ رفیع ملا وہ بھی نہ ملتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 384