صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
73. باب بَدْءِ الْوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: اس بات کا بیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی (یعنی اللہ کا پیام) اترنا کیونکر شروع ہوا۔
حدیث نمبر: 409
وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا سَلَمَةَ : أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ؟ قَالَ: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، فَقُلْتُ: أَوِ اقْرَأْ، فَقَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّ الْقُرْآنِ أُنْزِلَ قَبْلُ؟ قَالَ: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، فَقُلْتُ: أَوِ اقْرَأْ، قَالَ جَابِرٌ : أُحَدِّثُكُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَهْرًا، فَلَمَّا قَضَيْتُ جِوَارِي، نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِي، فَنُودِيتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِي، وَخَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نُودِيتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، ثُمَّ نُودِيتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا هُوَ عَلَى الْعَرْشِ فِي الْهَوَاءِ يَعْنِي جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَأَخَذَتْنِي رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ فَأَتَيْتُ خَدِيجَةَ، فَقُلْتُ: دَثِّرُونِي، فَدَثَّرُونِي، فَصَبُّوا عَلَيَّ مَاءً "، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ {1} قُمْ فَأَنْذِرْ {2} وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ {3} وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ {4} سورة المدثر آية 1-4.
اوزاعی نے کہا: میں نے یحییٰ سے سنا، کہتے تھے: میں نے ابوسلمہ سے سوال کیا: قرآن کا کون سا حصہ پہلے نازل ہوا؟ کہا: ﴿یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ﴾۔ میں نے کہا: یا ﴿اِقْرَاْ﴾؟ ابو سلمہ نے کہا: میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: قرآن کا کون سا حصہ پہلے اتارا گیا؟ انہوں نے جواب دیا: ﴿ یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ﴾۔ میں نےکہا: یا ﴿ اِقْرَاْ ﴾؟ جابر رضی اللہ عنہ نےکہا: میں تمہیں وہی بات بتاتا ہوں جوہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے حراء میں ایک ماہ اعتکاف کیا۔ جب میں نے اپنا اعتکاف ختم کیا تو میں اترا، پھر میں وادی کے درمیان پہنچا تو مجھے آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا، مجھے پھر آواز دی گئی میں میں نے دیکھا، مجھے کوئی نظر نہ آیا، پھر (تیسری بار) مجھے آواز دی گئی تو میں نے سر اوپر اٹھایا تو وہی (فرشت (فضا میں تخت (کرسی) پر بیٹھا ہوا تھا (یعنی جبرییل رضی اللہ عنہ) اس کی وجہ سے مجھ پر سخت لرزہ طاری ہو گیا۔ میں خدیجہ ؓ کے پاس آ گیا اور کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو، انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا اور مجھ پرپانی ڈالا۔ تو اس (موقع) پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں: اے کمبل اوڑھنے والے! اٹھ اور ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑے پاک رکھ۔
یحییٰ نے ابو سلمہ ؒ سے سوال کیا: سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ نازل ہوا؟ اس نے جواب دیا: ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ تو میں نے کہا: کیا ﴿اِقْرَاْ﴾ نہیں؟ تو ابو سلمہؒ نے کہا: میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے پوچھا: سب سے پہلے قرآن کا کون سا حصہ اتارا گیا؟ تو جابر نے جواب دیا ﴿يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ﴾ تو میں نے کہا: ﴿اِقْرَاْ﴾ نہیں؟ جابر ؓ نے کہا میں تمھیں وہی بتاتا ہوں جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک ماہ حرا میں گزارا، جب میں نے اپنا اعتکاف مکمل کر لیا، تو میں اتر کر وادی کے درمیان پہنچ گیا، تو مجھے آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنے آگے اور اپنے پیچھے، اپنے دائیں اور اپنے بائیں نظر دوڑائی تو مجھے کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے آواز دی گئی تو میں نے دیکھا، مجھے کوئی نظر نہ آیا، پھر مجھے (تیسری بار) آواز دی گئی، اس پر میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو وہ، یعنی جبرائیل علیہ السلام فضا میں عرش (تخت کرسی) پر بیٹھا ہوا تھا، تو مجھ پر سخت لرزہ طاری ہو گیا۔ میں خدیجہؓ کے پاس آگیا اور کہا: مجھے کپڑا اوڑھا دو! انھوں نے کپڑا اوڑھا دیا اور مجھ پر پانی ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے آیات اتاریں: اے کپڑے میں لِپٹنے والے! اٹھ کر ڈرا اور اپنے رب کی کبریائی بیان کر اور اپنے کپڑے پاک صاف رکھ۔ (سورۃ المدثر: 1-4)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (404)»
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4922  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی`
«. . . عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ . . .»
. . . قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4922]

تخريج الحديث:
[101۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحييٰ، حديث: 4922]

فھم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی سورہ علق کی یہ ابتدائی آیات تھیں: «اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ * خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ دیر وحی منقطع رہی۔ انقطاع وحی کی مدت کتنی تھی اس بارے میں شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے جس بات کو صحیح کہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ انقطاع چند دنوں کا تھا، اس سلسلے میں تین سال یا دو سال کے اقوال درست نہیں۔ [الرحيق المختوم، عربي ايڈيشن ص: 52]
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراہٹ دور ہوئی تو دوسری وحی سورہ مدثر کی ان ابتدائی آیات کی صورت میں نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 101   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 409  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
جَاوَرْتُ:
میں نے مجاورت و اعتکاف کیا،
مصدر جوار ہے،
پڑوس میں رہنا،
کسی جگہ رک جانا۔
(2)
اسْتَبْطَنْتُ:
بطن سے ماخوذ ہے،
اندر چلے جانا،
میں وادی کے اندر چلا گیا۔
(3)
عَرْشٌ:
چارپائی،
کرسی،
تخت۔
(4)
رَجْفَةٌ شَدِيدَةٌ:
سخت کپکپی،
شدید لرزہ،
سخت بے چینی۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اترنے والی وحی،
سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات ہیں،
لیکن اگر تمام احادیث پر مجموعی طور پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہے کہ سب سے پہلے اترنے والی وحی سورۂ اقراء کی ابتدائی آیات ہیں،
کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت (252)
میں صاف موجود ہے کہ پہلی وحی،
غار حراء میں اتری جس میں جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو تین دفعہ دبایا،
اورجابرؓ کی حدیث (407 اور 408)
میں تصریح موجود ہے،
کہ فترت وحی کے بعد سب سے پہلے اترنے والی آیات سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات ہیں۔
گویا پہلی وحی کے بعد وحی کی آمد رک گئی،
پھر کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ آغاز ہوا،
لیکن سورۂ مدثر کی آیات کے بعد وحی میں تسلسل پیدا ہوگیا۔
نیز اس روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ یہ وحی لانے والا فرشتہ وہی تھا،
جو "جَاءَنِيْ بِحَرَاء" میرے پاس حرام میں آچکا تھا اور سورۂ مدثر کی آیات،
غار حراء کے بعد اتریں ہیں،
جبکہ پہلی وحی کا نزول،
غار حرام میں ہو چکا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 409