صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
74. باب الإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔
حدیث نمبر: 416
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ لَعَلَّهُ، قَالَ: عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، إِذْ سَمِعْتُ قَائِلًا، يَقُولُ: أَحَدُ الثَّلَاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأُتِيتُ فَانْطُلِقَ بِي، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهَا مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، فَشُرِحَ صَدْرِي إِلَى كَذَا وَكَذَا، قَالَ قَتَادَةُ: فَقُلْتُ لِلَّذِي مَعِي: مَا يَعْنِي؟ قَالَ: إِلَى أَسْفَلِ بَطْنِهِ، فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِي، فَغُسِلَ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ أُعِيدَ مَكَانَهُ، ثُمَّ حُشِيَ إِيمَانًا وَحِكْمَةً، ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ، يُقَالُ لَهُ: الْبُرَاقُ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ، يَقَعُ خَطْوُهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ، فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَم، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفَتَحَ لَنَا، وَقَالَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، قَالَ: فَأَتَيْنَا عَلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ، وَذَكَرَ أَنَّهُ لَقِيَ فِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ عِيسَى وَيَحْيَى عَلَيْهَا السَّلَام، وَفِي الثَّالِثَةِ يُوسُفَ، وَفِي الرَّابِعَةِ إِدْرِيسَ، وَفِي الْخَامِسَةِ هَارُونَ، صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ، وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَكَى، فَنُودِيَ مَا يُبْكِيكَ، قَالَ: رَبِّ، هَذَا غُلَامٌ بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَكْثَرُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: وَحَدَّثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ رَأَى أَرْبَعَةَ أَنْهَارٍ يَخْرُجُ مِنْ أَصْلِهَا نَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، وَنَهْرَانِ بَاطِنَان، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَا هَذِهِ الأَنْهَارُ؟ قَالَ: أَمَّا النَّهْرَانِ الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ، ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرُ مَا عَلَيْهِمْ، ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ أَحَدُهُمَا خَمْرٌ وَالآخَرُ لَبَنٌ، فَعُرِضَا عَلَيَّ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فَقِيلَ: أَصَبْتَ، أَصَابَ اللَّهُ بِكَ أُمَّتُكَ عَلَى الْفِطْرَةِ، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسُونَ صَلَاةً "، ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّتَهَا إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ.
سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی (انہوں نے غالباً یہ کہا) کہ مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے (جو ان کی قوم کے فرد تھے) کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا، اس اثناء میں ایک کہنے والے کو میں نے یہ کہتے سنا: تین آدمیوں میں سے ایک، دو کے درمیان والا پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا، اس کے بعد میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھا، پھر میرا سینہ کھول دیا گیا، فلاں سے فلاں جگہ تک (قتادہ نےکہا: میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا: اس سے کیا مراد لے رہے ہیں؟ اس نے کہا، پیٹ کے نیچے کےحصے تک) پھر میرا دل نکالا گیا اور اسے زم زم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا جسے براق کہا جاتا ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نظر کی آخری حد تھی، مجھے اس پر سوار کیا گیا، پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم سب سے نچلے (پہلے) آسمان تک پہنچے۔ جبریل رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا: تو پوچھا گیا: یہ (دروازہ کھلوانے والا) کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: کیا (آسمانوں پر لانے کےلیے) ان کی طرف سے کسی کو بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں۔ تو اس نے ہمارے لیے دروازہ کھول دیا اور کہا: مرحبا! آپ بہترین طریقے سے آئے! فرمایا: پھر ہم آدم رضی اللہ عنہ کے سامنے پہنچ گئے۔ آگے پورے قصے سمیت حدیث سنائی اور بتایا کہ دوسرے آسمان پر آپ عیسیٰ اور یحییٰ رضی اللہ عنہ سے، تیسرے پر یوسف رضی اللہ عنہ سے اور چوتھے پر ادریس رضی اللہ عنہ سے، پانچویں پر ہارون رضی اللہ عنہ سے ملے، کہا: پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچے، میں موسیٰ رضی اللہ عنہ کےپاس پہنچا اور ان کو سلام کیا، انہوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا، جب میں ان سے آگے چلا گیا تو وہ رونے لگے، انہیں آواز دی گئی آپ کو کس بات نے رلا دیا؟ کہا: اے میرے رب! یہ نوجوان ہیں جن کو تو نے میرےبعد بھیجا ہے ان کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے تو میں ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سامنے آیا۔ اور انہوں نے حدیث میں کہا کہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ انہوں نے چار نہریں دیکھیں، ان کے منبع سے دو ظاہری نہریں نکلتی ہیں اور دو پوشیدہ نہریں۔ میں نے کہا: اے جبریل! یہ نہریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: جو دو پوشیدہ ہیں تو وہ جنت کی نہریں ہیں اور دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں، پھر بیت معمور میرے سامنے بلند کیا گیا میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کیا ہے؟ کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، جب اس سے نکل جاتے ہیں، تو اس (زمانے) کے آخر تک جو ان کے لیے ہے دوبارہ اس میں نہیں آ سکتے، پھر میرےپاس دو برتن لائے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا، دونوں میرے سامنے پیش کیے گئے تو میں نے دودھ کو پسند کیا، اس پر کہا گیا، آپ نے ٹھیک (فیصلہ) کیا، اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے سے (سب کو) صحیح (فیصلہ) تک پہنچائے، آپ کی امت (بھی) فطرت پر ہے، پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں ..... پھر (سابقہ) حدیث کے آخر تک کا سارا واقعہ بیان کیا۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انھوں نے شاید اپنی قوم کے ایک آدمی حضرت مالک بن صعصعہ ؓ سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا، اس اثناء میں، میں نے ایک کہنے والے کو کہتے سنا: کہ تین آدمیوں میں سے دو کے درمیان والا ہے۔ پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا۔ پھر میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا جس میں زمزم کا پانی تھا اور یہاں سے لے کر یہاں تک میرا سینہ کھولا گیا۔ قتادہؒ کہتے ہیں: میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا اس سے کیا مراد ہے؟ اس نے کہا: پیٹ کے نیچے تک۔ (سینہ کھولا گیا) پھر میرا دل نکالا گیا، اور اسے زمزم کے پانی سے صاف کر کے اس کی جگہ پر دوبارہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا۔ پھر میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا، جسے براق کہا جاتا ہے۔ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، جو اپنا قدم اپنے منتہائے نظر پر رکھتا تھا۔ (جس جگہ اس کی نگاہ پڑتی تھی وہاں قدم رکھتا تھا) مجھے اس پر سوار کردیا گیا۔ پھر ہم چل دیے یہاں تک کہ ہم پہلے آسمان پر پہنچے۔ جبریل ؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، تو پوچھا گیا: (یہ دروازہ کھلوانے والا) کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ پوچھا گیا: اور تیرے ساتھ کون ہے؟ کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا: کیا انھیں بلوایا گیا ہے؟ کہا: ہاں! تو ہمارے لیے اس نے دروازہ کھول دیا اور کہا مرحبا! اور وہ بہترین آمد آئے ہیں، اور ہم آدمؑ کے پاس پہنچ گئے۔ آگے پورا واقعہ بیان کیا اور بتایا: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے آسمان پر عیسیٰؑ اور یحیی ٰ ؑ کو ملے۔ تیسرے پر یوسفؑ کو اور چوتھے پر ادریسؑ سے ملے، پانچویں پر ہارونؑ سے۔ کہا: پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچے، میں موسیٰؑ کے پاس پہنچا اور ان کو سلام کیا۔ انہوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا۔ جب میں ان کے آگے سے گزر گیا، تو وہ رونے لگے۔ آواز دی گئی: آپ کیوں روتے ہیں؟ کہا: اے میرے رب! یہ نوجوان جس کو تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے، تو میں ابراہیمؑ تک پہنچ گیا۔ اور حدیث میں یہ بھی بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: میں نے اس (یعنی سدرۃ المنتہیٰ) کی جڑ سے چار نہریں نکلتی دیکھیں۔ دو کھلی اور دو پوشیدہ۔ میں نے کہا: اے جبریل! یہ نہریں کیا ہیں؟ اس نے کہا باطنی (پوشیدہ) جنت کی نہریں ہیں، اور ظاہری (کھلی) نیل وفرات ہیں۔ پھر میرے سامنے بیت المعمورکیا گیا، تو میں نے پوچھا: اے جبریلؑ! یہ کیا ہے؟ کہا: یہ بیت المعمور ہے اس میں ہر روزستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، جب اس سے نکل جاتے ہیں پھر آخر تک اس میں واپس نہیں آتے۔ (ان کو دوبارہ حاضری کا موقع نہیں ملے گا) پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک شراب کا برتن اور دوسرا دودھ کا، دونوں مجھ پر پیش کیے گئے۔ میں نے دودھ کو پسند کیا تو مجھے کہا گیا: آپ نے درست کیا (فطرت کو اختیار کیا)، اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا۔ آپ کی امت فطرت پر رہے گی، یا اللہ تعالیٰ آپ کے سبب آپ کی امت کو فطرت پر پہنچائے گا (آپ کی امت بھی آپ کی اتباع میں فطرت کو اختیار کرے گی)، پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر سارا واقعہ بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((بدء الخلق)) باب: ذخر الملائكة برقم (3207) وفى امناقب الانصار، باب: المعراج برقم (3887) وفى احاديث الانبياء، باب: قول الله عز وجل: ﴿ وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ ‎،‏ إِذْ رَأَىٰ نَارًا ﴾ الى قوله ﴿ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴾ برقم (3393) وفي، باب: قوله تعالى ﴿ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا ﴾ الآيات برقم (3430) والترمذي في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة الم نشرح برقم (3346) وقال: هذا حديث حسن صحيح والنسائي في ((المجتبى)) 220/1 في الصلاة، باب: فرض الصلاة وذكر اختلاف الناقلين...... الخ - انظر ((التحفة)) برقم (11202)»
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 349  
´واقعہ معراج قرآن کریم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَرَجَ صَدْرِي . . .»
. . . ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 349]

تخريج الحديث:
[102۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 1 باب كيف فرضت الصلاة فى الإسراء 349 مسلم 163 أبوعوانة 133/1]

لغوی توضیح:
«سَقْف» چھت۔
«طَسْت» برتن۔
«فَفَرَجَ» کھل گیا، پھٹ گیا۔
«اَسْوِدَة» اشخاص۔
«نَسَم» جمع ہے «نَسَمَة» کی، معنی ہے ارواح۔
«ظَهَرْتُ» میں بلند ہوا۔
«صَرِيْفَ الْاَقْلَامِ» قلموں کے لکھنے کی آواز، یہ فرشتوں کے لکھنے کی آواز تھی جو اللہ کے فیصلے اور وحی لکھتے ہیں۔
«الْجَنَابِذ» جمع ہے «جنبذه» کی، معنی ہے قبے، خیمے۔

فھم الحدیث:
واقعہ معراج قرآن کریم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے کہ ساتوں آسمانوں کا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہو گیا۔ یہ معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے جو دوسرے کسی نبی کو عطا نہیں ہوا۔ اہل السنہ و ائمہ سلف کا عقیدہ ہے کہ یہ کوئی خواب یا روحانی سیر نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم و روح سمیت بیداری کی حالت میں آسمانوں پر لے جایا گیا جہاں آپ نے انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں کیں اور بارگاہ الٰہی سے پانچ نمازوں کا تحفہ لائے۔ [الوجيز فى عقيدة السلف 66/1 تفسير احسن البيان ص: 765 الرحيق المختوم ص: 198]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 102   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 449  
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے) آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور لایا گیا، میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، پوچھا گیا: کیا بلائے گئے ہیں؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا: کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی! پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ۱؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر بیت معمور ۲؎ میرے قریب کر دیا گیا، میں نے (اس کے متعلق) جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی میرے قریب کر دیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، اور اس کی جڑ سے چار نہریں نکلی ہوئی تھی، دو نہریں باطنی ہیں، اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: باطنی نہریں تو جنت میں ہیں، اور ظاہری نہریں فرات اور نیل ہیں، پھر میرے اوپر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں، میں لوٹ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میرے اوپر پچاس نمازیں فرض کی گئیں ہیں، انہوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اس کی طاقت بالکل نہیں رکھتی، اپنے رب کے پاس واپس جایئے، اور اس سے گزارش کیجئیے کہ اس میں تخفیف کر دے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس کر دی ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے وہی بات کہی جو پہلی بار کہی تھی، تو میں پھر اپنے رب عزوجل کے پاس واپس آیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تیس کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے انہیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں نے کہا: (اب مجھے) اپنے رب عزوجل کے پاس (باربار) جانے سے شرم آ رہی ہے، تو آواز آئی: میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے، اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے، اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 449]
449 ۔ اردو حاشیہ:
«عِنْدَ الْبَيْتِ» سے بیت اللہ مراد ہے۔ آپ بیت اللہ کے ایک حصے حجر میں لیٹے ہوئے تھے۔ اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ام ہانی کے گھر کا ذکر ہے۔ [تفسیر طبری: 9؍5]
ممکن ہے وہیں سوئے ہوں، پھر حطیم میں آگئے ہوں۔
جاگنے سونے کے درمیان آپ کی عمومی نیند ایسی ہی تھی اور یہاں اس کا مطلب گہری نیند کی نفی ہے، یعنی آپ نیند کے ابتدائی مرحلے میں تھے، اسے جاگنے اور سونے کے درمیان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تین آدمی آئے ظاہر صورت کے لحاظ سے آدمی کہا: ورنہ وہ فرشتے تھے۔ دو کا نام بعض روایات میں ہے: جبریل اور میکائیل علیہما السلام۔
➍آپ کے سینۂ اطہر کا چیرا جانا، پھر زمزم سے دھویا جانا اور ایمان وحکمت سے بھرا جانا، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ترین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا باہمی راز ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی، ممکن ہے یہ آسمانوں پر جانے کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ ہو۔
➎ استدلال کیا گیا ہے کہ زم زم کا پانی جنت کے پانی سے افضل ہے۔ تبھی آپ کے قلب اقدس کو اس سے دھویا گیا۔
جانور کا نام روایات میں براق آیا ہے۔ [صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث: 3887، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث: 164]
مگر یہ بھی وصفی نام ہے جو برق سے لیا گیا ہے۔
میں جبریل کے ساتھ چلا۔ آنے والے تین ہمراہیوں میں سے ایک جبریل علیہ السلام ہی تھے۔ اس کے بعد باقی دو کا ذکر نہیں۔ ظاہر ہے وہ خالی تھال لے کر اور آپ کے دیدار سے مشرف ہو کر واپس چلے گئے۔
ہم آسمان دنیا کے پاس آئے۔ روایت مختصر ہے۔ بعض روایات میں مدینہ منورہ، طورسینا، بیت اللحم اور بیت المقدس جانے کا بھی ذکر ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 451) لیکن اس اضافے کے ساتھ یہ روایت منکر ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: [الاسراء والمعراج للالبانی، ص: 44]
➒ساتوں آسمانوں پر مختلف انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات، ممکن ہے ان کو آپ کے استقبال و ملاقات کے لیے خصوصی طور پر لایا گیا ہو۔ اور یہی انسب ہے۔
➓ حضرت آدم اور ابراہیم علیہما السلام کا آپ کو بیٹا کہنا اس لیے ہے کہ وہ آپ کے اجداد میں شامل ہیںَ۔ نسب میں ان کا ذکر ہوتا ہے، جب کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام آپ کے نسب میں نہیں آتے، لہٰذا وہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے رتبے میں ہیں، تبھی انہوں نے آپ کو بھائی کہا:۔ (11)موسیٰ علیہ السلام کا رونا آپ یا آپ کی امت پر حسد کے طور پر نہیں تھا۔ حاشاوکلا۔ انبیاء علیہم السلام اس بیماری سے معصوم ہوتے ہیں، بلکہ یہ اپنی امت پر افسوس کی بنا پر تھا کہ میں نے اتنی محنت کی، اتنا عرصہ گزارا مگر میں یہ رتبہ حاصل نہ کرسکا کیونکہ جس نبی کے جتنے زیادہ پیروکار ہوں گے اسے اتنا ہی اجروثواب سے نوازا جائے گا۔ اگر حسد ہوتا تو واپسی کے وقت امت مسلمہ کے خیرخواہی کیوں کرتے اور پچاس(50) سے پانچ(5) نمازیں رہ جانے کا سبب کیوں بنتے؟ شاید اسی شبہے کے ازالے کے لیے یہ باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہلوائی گئیں، ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے۔ واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات پہلے ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام تو چھٹے آسمان پر تھے۔ بعض محدثین نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ واپسی کے وقت انبیاء علیہم السلام کی ترتیب بدل گئی ہو گی۔ (12)بیت المعمور بیت اللہ کے عین اوپر ساتویں آسمان پر ہے جس میں فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جو ایک دفعہ آتا ہے اس کی دوبارہ باری نہیں آتی۔ اور داخل بھی روزانہ سترہزار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ فرشتے دیگر تمام مخلوقات سے تعداد میں زیادہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ [صحیح البخاری، بدء الخلق، حدیث: 3207]
(13) سدرۃ المنتہیٰ بیری کا درخت ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ قطعیت سے کچھ نہیں کہا: جا سکتا۔ صوفیاء نے اسے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا تمثل قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ سدرہ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ المنتہیٰ کے معنی ہیں: آخری، یعنی یہ مخلوقات کی انتہا ہے، یہاں عالم خلق ختم ہو جاتا ہے۔ بقول صوفیاء اس سے اوپر عالم امر ہے جہاں کسی مخلوق کی رسائی نہیں خواہ وہ کوئی انسان ہو یا فرشتہ۔ اس حدیث میں اسے ساتویں آسمان سے اوپر قرار دیا گیا ہے۔ آگے ایک حدیث میں اسے چھٹے آسمان پر بتلایا گیا ہے۔ تطبیق یوں ہے کہ جڑ چھٹے آسمان پر ہو گی اور شاخیں ساتویں آسمان پر پہنچی ہوئی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ (14)سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہروں (یادریاؤں) کا جو ذکر ہے ان میں سے دو پوشیدہ بتلایا گیا ہے، نیز یہ کہ وہ جنت میں ہیں۔ اور دو کو ظاہر کیا گیا ہے جو نیل اور فرات ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں جنت کی دو باطنی نہروں کے نام سیحان اور جیجان بتلائے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحنۃ وتیمھا، حدیث: 2839) علاوہ ازیں ان چاروں نہروں کو جنت کی نہریں قرار دیا گیا ہے۔ دریائے نیل و فرات تو مشہور اور ان کے علاقے بھی معلوم ہیں اور سیحان و جیجان کی بابت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں نہریں بہت بڑی ہیں اور ترکی میں ہیں۔ جیجان کی گزرگاہ مصیصہ ہے سیحان کی گزرگاہ اذنہ ہے۔ اور یہ دونوں نہریں بحرروم میں گرتی ہیں۔ ان کے علاوہ دو نہریں اور ہیں جن کے نام ان سے ملتے جلتے ہیں، یعنی جوجون اور سیحون۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ حدیث میں مذکور جیجان اور سیحان سے یہی مراد ہیں۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تردید کی ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی۔ اور مولانا موصوف نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ دریائے جیجون وہی ہے جسے آج کل دریائے آمو کہا جاتا ہے اور یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان حد ہے۔ یہ بلخ، ترمذ اور آمل ودرغان سے گزرتا ہوا بحیرۂ خوارزم میں جاگرتا ہے۔ اور سیحون، جیجون کے ماور اء ہے جو خجندہ اور خوقند کے قریب اور تاشقند سے پہلے گزرتا ہے۔ اسے آج کل سیردریا کہا جاتا ہے۔ ان چاروں دریائوں کے جنت سے ہونے کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کی اصل جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان نہروں کے جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان نہروں کے جنت سے ہونے سے مراد شاید یہ ہے کہ ان کی اصل جنت سے ہے، جیسے انسان کی اصل جنت سے ہے۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں ہے جو ان نہروں کی بابت مشہورومعلوم ہے کہ یہ نہریں زمین کے معروف سرچشموں سے پھوٹتی ہیں۔ اور اگر اس کے یہ یا اس سے ملتے جلتے معنی نہیں ہیں تو یہ حدیث امورغیب سے متعلق ہے جن پر ایمان رکھنا اور جو خبر دی گئی ہے، اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔۔۔ [سلسلة الاحادیث الصحیحة، 1؍177، 178]
بعض لوگوں نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن علاقوں میں یہ نہریں بہتی ہیں، ان میں اسلام کا پھیلاؤ اور غلبہ ہو گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان نہروں کے پانی سے پیدا ہونے والی خوراک جو لوگ استعمال کریں گے وہ جنتی ہوں گے۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں تاویلوں کے مقابلے میں اس کا پہلا ظاہری معنیٰ ہی زیادہ صحیح ہے۔ [شرح صحیح مسلم للنووي، الجنة حدیث: 2839، ومنة المنعم: 4؍322، مطبوعة دارالسلام، الریاض]
(15)واپسی کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نبی کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے واپسی پردیگر انبیاء سے ملاقات ہی نہ ہوئی ہو، یعنی جہاں سے ان کو لایا گیا تھا، وہیں بھیج دیا گیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کوئی خصوصی بات نہ ہوئی ہو، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ (16)حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس اللہ عزوجل کے پاس جانا شاید اس شبہے کو دور کرنے کے لیے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی امت پر حسد ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے الزام سے بچانے کے لیے دنیا میں پتھر والا واقعہ پیش آیا تھا۔ [صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 278، وصحیح مسلم، الحیض، حدیث: 339]
(17) نمازوں کی تخفیف بعض روایات کے مطابق پانچ(5) پانچ(5) سے ہوئی۔ [صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 162]
گویا اس روایت میں اختصار ہے۔ آخر میں پانچ (5) کا رہ جانا بھی اس کا مؤید ہے۔ (18) «امضیت فریضتی» ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل فریضہ پانچ(5) نمازیں ہی تھیں۔ پچاس نمازوں کا مقرر ہونا گویا ان کے ثواب کے اظہار کے لیے تھا، باربار آنے جانے سے یہ عقدہ حل ہو گیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 449   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 451  
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہو گیا، اور میرے ہمراہ جبرائیل علیہ السلام تھے، میں چلا، پھر جبرائیل نے کہا: اتر کر نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہو گی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر نماز پڑھئے، تو میں نے نماز پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر نماز پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر نماز پڑھئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام کو اکٹھا کیا گیا، جبرائیل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی، پھر مجھے لے کر جبرائیل آسمان دنیا پر چڑھے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آدم علیہ السلام موجود ہیں، پھر وہ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں دونوں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام موجود ہیں، پھر تیسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں یوسف علیہ السلام موجود ہیں، پھر چوتھے آسمان پر چڑھے تو وہاں ہارون علیہ السلام ملے، پھر پانچویں آسمان پر چڑھے تو وہاں ادریس علیہ السلام موجود تھے، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں موسیٰ علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان پر چڑھے وہاں ابراہیم علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر چڑھے اور ہم سدرۃ المنتہیٰ تک آئے، وہاں مجھے بدلی نے ڈھانپ لیا، اور میں سجدے میں گر پڑا، تو مجھ سے کہا گیا: جس دن میں نے زمین و آسمان کی تخلیق کی تم پر اور تمہاری امت پر میں نے پچاس نمازیں فرض کیں، تو تم اور تمہاری امت انہیں ادا کرو، پھر میں لوٹ کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: تم پر اور تمہاری امت پر کتنی (نمازیں) فرض کی گئیں؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں، تو انہوں نے کہا: نہ آپ اسے انجام دے سکیں گے اور نہ ہی آپ کی امت، تو اپنے رب کے پاس واپس جایئے اور اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں پھر واپس گیا تو اس نے (پھر) دس نمازیں تخفیف کر دیں، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں واپس گیا، تو اس نے مجھ سے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر (باربار درخواست کرنے سے) پانچ نمازیں کر دی گئیں، (اس پر بھی) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کے حضور واپس جایئے اور تخفیف کی گزارش کیجئے، اس لیے کہ بنی اسرائیل پر دو نمازیں فرض کی گئیں تھیں، تو وہ اسے ادا نہیں کر سکے، چنانچہ میں اپنے رب کے حضور واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے فرمایا: جس دن میں نے زمین و آسمان پیدا کیا، اسی دن میں نے تم پر اور تمہاری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو اب یہ پانچ پچاس کے برابر ہیں، انہیں تم ادا کرو، اور تمہاری امت (بھی)، تو میں نے جان لیا کہ یہ اللہ عزوجل کا قطعی حکم ہے، چنانچہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: پھر جایئے، لیکن میں نے جان لیا تھا کہ یہ اللہ کا قطعی یعنی حتمی فیصلہ ہے، چنانچہ میں پھر واپس نہیں گیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 451]
451 ۔ اردو حاشیہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت اس سیاق سے منکر ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس روایت کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں: «فیھا عرابة ونکارة جدا» اس طریق میں سخت غرابت و نکارت ہے۔ اس کی سند میں ایک تو یزید بن عبدالرحمٰن بن ابی مالک دمشقی ہے جو صدوق ہے لیکن کبھی کبھار وہم کا شکار ہو جاتا تھا، دوسرے اس سے روایت کرنے والے سعید بن عبدالعزیز تنوخی ہیں، اگرچہ ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (تقریب) لہٰذا اس روایت میں مدینہ طیبہ، طورسینا اور بیت اللحم میں اترنے اور وہاں نماز پڑھنے کا واقعہ درست نہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [الإسراء والمعراج للالباني، ص: 44]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 451   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3346  
´سورۃ الم نشرح سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا تین آدمیوں میں سے ایک (محمد ہیں) ۱؎، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا: پیٹ کے نیچے تک، پھر آپ نے فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3346]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان تین میں ایک جعفر،
ایک حمزہ اور ایک نبیﷺتھے۔

2؎:
شق صدر کا واقعہ کئی بار ہوا ہے،
انہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے۔

3؎:
یہ قصہ اسراء اورمعراج کا ہے جو بہت معروف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3346   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 416  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت موسیٰؑ کا رونا اس بنا پر تھا کہ انہوں نے بنو اسرائیل کی تعلیم وتربیت کے لیے بہت جتن کیے،
لیکن وہ ان کی محنت کے مطابق درست نہ ہوئے،
اور اپنی کثرت کے باوجود ان میں کم لوگ جنتی ہوں گے،
اس پر انہیں رنج اور افسوس ہوا۔
(2)
حضرت موسیؑ نے آپ کو غلام (نوجوان)
قرار دیا،
کیونکہ آپ ﷺ اس عمر میں بھی نوجوانوں والا جذبہ اور قوت رکھتے تھے،
اور اپنی امت کی تعلیم اور دین کے فروغ کے لیے مسلسل اور پیہم کوشش فرما رہے تھے،
اس عمر میں اتنی تگ ودو اور محنت عام طور پر ممکن نہیں ہے۔
(3)
نیل،
مصر میں بہنے والا دریا ہے اور فرات عراق میں ان دونوں دریاؤں کا اصل منبع سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ ہے،
پھر ان کا ظہور دنیا میں ہوا،
اس لیے ان کا پانی،
انتہائی شیریں،
صاف زور ہضم اور سرسبزی وشادابی کا باعث ہے۔
البینات عاصم حداد میں کچھ دلائل کی روشنی میں ایک اور معنی بیان کیا گیا ہے،
تفصیل کے لیے دیکھئے:
ص: 192 تا 194۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 416