صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
75. باب فِي ذِكْرِ الْمَسِيحِ ابْنِ مَرْيَمَ وَالْمَسِيحِ الدَّجَّالِ:
باب: مسیح ابن مریم اور مسیح دجال کا بیان۔
حدیث نمبر: 428
حَدَّثَنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ، فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ ".
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قریش نے مجھے جھٹلایا، میں نے حجر (حطیم) میں کھڑا ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے اچھی طرح نمایاں کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر اس کی نشانیاں ان کو بتانی شروع کر دیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قریش نے مجھے جھٹلایا، میں حِجر (حطیم) میں کھڑا ہوا، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے کر دیا اور میں اسے دیکھ کر انھیں اس کی نشانیاں بتلانے لگا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام برقم (4710) وفى المناقب، باب: حديث الاسراء، وقول الله تعالى: ﴿ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ﴾ برقم (3886) والترمذى في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة بنى اسرائيل وقال: هذا حديث حسن صحیح برقم (3133) انظر ((التحفة)) برقم (3151)»
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3886  
´بیت المقدس تک جانے کا قصہ`
«. . . يَقُولُ:" لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ. . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے (معراج کے واقعہ کے سلسلے میں) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3886]

تخريج الحديث:
[109- البخاري فى: 63 كتاب مناقب الانصار: 41 باب حديث الاسراء۔۔۔ 3886، مسلم 170، ترمذي 3133]

لغوی توضیح:
«الحِجر» مراد حطیم ہے، یعنی بیت اللہ کے عراقی اور شامی کونے کے درمیان وہ جگہ جس کے گرد دائرے کی شکل میں ایک چھوٹی سی دیوار بنائی گئی ہے۔ جس کا مقصد ہے کہ لوگ اس کے باہر سے طواف کریں کیونکہ وہ جگہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے۔ دراصل ایامِ جاہلیت میں کفار مکہ کی حلال کمائی کم پڑ جانے کی وجہ سے اس جگہ کو بغیر تعمیر کیے ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس جگہ کو «حِجْرِ اِسْمَاعِيْل» بھی کہا جاتا ہے۔
«فَجَلَا» کھول دیا، ظاہر کر دیا۔

فھم الحدیث:
دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کے سامنے واقعہ معراج بیان کیا تو انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کے دوران بیت المقدس کا بھی ذکر فرمایا تھا اس لیے قریش نے آپ سے بیت المقدس کی صفات کے بارے میں سوال کر لیا، تب اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے بیت المقدس ظاہر فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے بیت المقدس کی نشانیاں اور صفات بیان کرنا شروع کر دیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 109   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 428  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آج کے دور میں دنیا کی کوئی سی عمارت،
دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹی وی کے ذریعہ دکھائی جا سکتی ہے،
تو قدرت الہٰی کے سامنے کونسی چیز نا ممکن ہو سکتی ہے۔
(اس حدیث کا تعلق پچھلے باب سے ہے)
اگر اللہ نے آپ کو حطیم میں کھڑے بیت المقدس دکھا دیا تو اس میں کوئی انہونی بات نہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 428