صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
77. باب مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى} وَهَلْ رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَيْلَةَ الإِسْرَاءِ:
باب: اس باب میں یہ بیان ہے کہ «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» سے کیا مراد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ جل جلالہ کو معراج کی رات میں دیکھا تھا یا نہیں۔
حدیث نمبر: 441
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ : هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: " سُبْحَانَ اللَّهِ، لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي لِمَا قُلْتَ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بقصته وحديث داود، أتم، وأطول.
اسماعیل (بن ابی خالد) نے (عامر بن شراحیل) شعبی سے حدیث بیان کی، انہوں نے مسروق سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا: کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! جو تم نے کہا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔ پھر (اسماعیل نے) پورے قصے سمیت حدیث بیان کی لیکن داود کی روایت زیادہ کامل اور طویل ہے۔
مسروقؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہؓ سے پوچھا: کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ "فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللہِ!" انھوں نے تعجب سے کہا: سبحان اللہ! تیری بات سے میرے بال کھڑے ہو گئے ہیں۔ (رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں) اسماعیلؒ نے حدیث واقعہ سمیت بیان کی، لیکن داؤدؒ کی روایت زیادہ کامل اور طویل ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (438)»
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 441  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
سُبْحَانَ اللهِ:
عرب یہ کلمہ حیرت و استعجاب کے وقت استعمال کرتے ہیں،
کہ آپ پر اس بات کا مخفی رہ جانا،
انتہائی حیرت و تعجب انگیز ہے،
آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔
بعض دفعہ ایسے موقع پر لا الٰہ الا اللہ بھی کہہ دیتے ہیں۔
(2)
لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي:
عرب کسی بات کے انکار کے لیے کہہ دیتے ہیں،
"قف شعري" میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
یا "إقْشَعَرَّ جِلْدِيْ" مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔
(3)
دَنَا فَتَدَلَّى:
قریب ہوا مزید قریب ہو گیا۔
تدلّٰی کا اصل معنی ہوتا ہے،
اوپر سے نیچے لٹک آنا۔
مقصد یہ ہے کہ جبریلؑ اوپر تھا،
قریب ہونے کے لیے اوپر سے مزید نیچے آ گیا۔
(4)
قَابَ:
قدر،
فاصلہ۔
(5)
قَوْسٌ:
(کمان)
اور بقول بعض ایک ہاتھ (ذراع)
مراد ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 441