صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
باب: جنتوں میں سب سے کم تر درجہ والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 473
وحَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ الْفَقِيرُ ، قَالَ: " كُنْتُ قَدْ شَغَفَنِي رَأْيٌ مِنْ رَأْيِ الْخَوَارِجِ، فَخَرَجْنَا فِي عِصَابَةٍ ذَوِي عَدَدٍ، نُرِيدُ أَنْ نَحُجَّ، ثُمَّ نَخْرُجَ عَلَى النَّاسِ، قَالَ: فَمَرَرْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ، فَإِذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ، جَالِسٌ إِلَى سَارِيَةٍ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَإِذَا هُوَ قَدْ ذَكَرَ الْجَهَنَّمِيِّينَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ، مَا هَذَا الَّذِي تُحَدِّثُونَ! وَاللَّهُ يَقُولُ: إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ سورة آل عمران آية 192، وَ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا سورة السجدة آية 20، فَمَا هَذَا الَّذِي تَقُولُونَ؟ قَالَ: فَقَالَ: أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ بِمَقَامِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يَعْنِي الَّذِي يَبْعَثُهُ اللَّهُ فِيهِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ مَقَامُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَحْمُودُ الَّذِي يُخْرِجُ اللَّهُ بِهِ مَنْ يُخْرِجُ، قَالَ: ثُمَّ نَعَتَ وَضْعَ الصِّرَاطِ، وَمَرَّ النَّاسِ عَلَيْهِ، قَالَ: وَأَخَافُ أَنْ لَا أَكُونَ أَحْفَظُ ذَاكَ، قَالَ: غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ زَعَمَ، أَنَّ قَوْمًا يَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ، بَعْدَ أَنْ يَكُونُوا فِيهَا، قَالَ: يَعْنِي فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمْ عِيدَانُ السَّمَاسِمِ، قَالَ: فَيَدْخُلُونَ نَهَرًا مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ، فَيَغْتَسِلُونَ فِيهِ فَيَخْرُجُونَ كَأَنَّهُمُ الْقَرَاطِيسُ " فَرَجَعْنَا، قُلْنَا: وَيْحَكُمْ أَتُرَوْنَ الشَّيْخَ يَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعْنَا، فَلَا وَاللَّهِ مَا خَرَجَ مِنَّا غَيْرُ رَجُلٍ وَاحِدٍ، أَوْ كَمَا قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ.
م، یعنی محمد بن ابی ایوب نے کہا: مجھے یزید الفقیر نےحدیث سنائی، انہوں نے کہا: کہ خارجیوں کے نظریات میں سے ایک بات میرے دل میں گھر کر گئی تھی۔ ہم ایک جماعت میں نکلے جس کی اچھی خاصی تعداد تھی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ حج کریں اور پھر لوگوں کو خلاف خروج کریں (جنگ کریں۔) ہم مدینہ سے گزرے تو ہم نےدیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ (ایک ستون کے پاس بیٹھے) لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنا رہے ہیں، انہوں نے اچانک «الجہمیین» (جہنم سے نکل کر جنت میں پہنچنے والے لوگوں) کا تذکرہ کیا تو میں ان سے پوچھا: اے رسول اللہ کے ساتھی! یہ آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ فرماتا ہے: بے شک جس کو تو نے آگ میں داخل کر دیا اس کو رسوا کر دیا۔ اور: وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے، اسی میں لوٹا دیے جائیں گے۔ تویہ کیا بات ہے جو آپ کہہ رہے ہیں؟ (یزیدنے) کہا: انہوں نے (جواب میں) کہا: کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی: ہاں!انہوں نے کہا: کیا تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں سنا ہے، یعنی وہ مقام جس پر قیامت کے دن آپ کومبعوث کیا جائے گا؟ میں نے کہا: ہاں! انہوں نے کہا: بے شک و ہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام محمود ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں (جہنم سے) نکالنا ہو گا نکالے گا، پھر انہو ں نے (جہنم پر) پل رکھے جانے اور اس پر سے لوگوں کے گزرنے کا منظر بیان کیا۔ (یزید نے) کہا: مجھے ڈر ہے کہ میں اس کو پوری طرح یاد نہیں رکھ سکا ہوں۔ سوائے اس کے کہ انہوں نے بتایا: کچھ لوگ جہنم میں چلے جانے کے بعد اس سے نکلیں گے، یعنی انہوں نےکہا: وہ اس طرح نکلیں گے جیسے وہ تلوں (کےپودوں) کی لکڑیاں ہوں، وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں داخل ہو ں گے اور اس میں نہائیں گے، پھر اس میں سے (کورے) کاغذوں کی طرح (ہوکر) نکلیں گے، پھر (یہ حدیث سن کر) ہم واپس آئے اورہم نے کہا: تم پر افسوس! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ بوڑھا (صحابی حضرت جابر رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟ اور ہم نے (سابقہ رائے سے) رجوع کر لیا۔ اللہ کی قسم! ہم میں سے ایک آدمی کے سوا کسی نے خروج نہ کیا، یا جس طرح (کے الفاظ میں) ابو نعیم نے کہا۔
یزید فقیر سے روایت ہے، کہ خارجیوں کی آراء میں سے ایک رائے میرے دل میں گھر کر گئی، ہم ایک بڑی تعداد کی جماعت کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے، کہ پھر ہم لوگوں میں اس رائے کی تبلیغ کے لیے نکلیں گے۔ تو ہم مدینہ سے گزرے، وہاں دیکھا کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ایک ستون کے پاس بیٹھ کر لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہے ہیں، انھوں نے اچانک دوزخیوں کا تذکرہ کیا، تو میں نے ان سے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! یہ آپ لوگ کیا بیان کر رہے ہیں؟ جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو یہ ہے: بے شک جس کو تو نے آگ میں داخل کر دیا تو اس کو رسوا کر دیا۔ (آلِ عمران: 129) اور فرمایا: وہ جب بھی اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے، اس میں لوٹا دیے جائیں گے۔(السجدہ: 20) تو یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ تو انھوں نے مجھ سے پوچھا: کیا تو قرآن پڑھتا ہے؟ میں نے کہا ہاں! انھوں نے کہا: کیا تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں سنا ہے؟ یعنی وہ مقام، جو آپ کو قیامت کے دن دیا جائے گا۔ میں نے کہا ہاں! انھوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام، وہ مقام ِ محمود ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا، جن کو نکالنا چاہے گا۔ پھر انھوں نے پُل رکھنے، اور اس پر لوگوں کے گزرنے کو بیان کیا، مجھے ڈر ہے کہ میں اس کو یاد نہیں رکھ سکا۔ ہاں اتنی بات ہے، انھوں نے کہا: کچھ لوگ جہنم میں رہنے کے بعد اس سے نکلیں گے۔ ابو نعیم نے کہا: تو وہ نکلیں گے، گویا کہ تلوں کی لکڑیاں ہیں، (یعنی جلے ہوئے بھنے ہوئے) تو وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں داخل ہوں گے، اور اس میں نہائیں گے، پھر اس سے کاغذوں کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ پھر ہم واپس آئے، اور ایک دوسرے کو کہا: تم پر افسوس! کیا تم سمجھتے ہو کہ بوڑھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے؟ اور ہم (اس رائے) سے لوٹ آئے، تو اللہ کی قسم! ہم میں سے صرف ایک آدمی الگ رہا، یا جیسا کہ ابو نعیم نے کہا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3140)»
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 473  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
نَخْرُجُ عَلَى النَّاسِ:
لوگوں کو اس مذہب کی دعوت دینے کے لیے نکلیں گے۔
(2)
زَعَمَ:
یہ "قَالَ" کے معنی میں استعمال ہو جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے۔
نَعَتَ:
اس نے بیان کیا۔
(3)
عِيدَانُ السَّمَاسِمِ:
عيدان،
عُوْدٌ کی جمع لکڑی کو کہتے ہیں،
سماسم،
سمسم کی جمع ہے،
اور یہ تل کو کہتے ہیں،
اس کے پودوں کو اکھاڑ کر دھوپ میں چھوڑ دیتے ہیں؛ تاکہ ان سے تل نکال لیے جائیں،
اور یہ دھوپ میں پڑا رہنے سے سیاہ ہو جاتی ہیں،
اور جلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔
(4)
قَرَاطِيسُ:
قِرْطَاسٌ کی جمع ہے،
کاغذ۔
فوائد ومسائل:
(1)
خارجیوں کےنزدیک جہنم میں جانے والےکبھی جہنم سےنہیں نکلیں گے،
اور کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر،
جہنمی ہے۔
اوریہ عقیدہ،
صحیح احادیث کےخلاف ہے،
اورجن دوآیتوں کویہاں پیش کیاگیاہے،
یہ مسلمان معصیت کار کے بارےمیں نہیں ہیں،
ان کاتعلق کافروں اورمشرکوں سےہے۔
(2)
کسی صحابیؓ کےبارےمیں یہ تصورنہیں ہوسکتا،
کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرےگا،
جوبات آپ ﷺ نے فرمائی نہیں اس کو آپ کی طرف منسوب کردےگا۔
اسی اعتقاد کی بنا پر یہ تمام لوگ،
خارجیوں کے غلط عقیدہ سےبازآگئے،
صرف ایک آدمی اڑا رہا۔
(3)
ابونعیم،
فضل بن دکین کی کنیت ہے،
اور روایت بالمعنی کی صورت میں محتاط رویہ یہی ہے،
کہ وہاں "كما قال" کہہ دیاجائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 473