صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
84. باب أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً فِيهَا:
باب: جنتوں میں سب سے کم تر درجہ والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 475
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْن الْجَحْدَرِيُّ ومُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَهْتَمُّونَ لِذَلِكَ، وقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ: فَيُلْهَمُونَ لِذَلِكَ، فَيَقُولُونَ: لَوِ اسْتَشْفَعْنَا عَلَى رَبِّنَا حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، قَالَ: فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السّلامُ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ آدَمُ أَبُو الْخَلْقِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا عِنْدَ رَبِّكَ حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللَّهُ، قَالَ: فَيَأْتُونَ نُوحًا عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، فَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ الَّذِي اتَّخَذَهُ اللَّهُ خَلِيلًا، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السّلامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ الَّذِي كَلَّمَهُ اللَّهُ، وَأَعْطَاهُ التَّوْرَاةَ، قَالَ: فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، فَيَسْتَحْيِي رَبَّهُ مِنْهَا، وَلَكِنِ ائْتُوا عِيسَى رُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى رُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَقُولُ: لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدًا، قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَيَأْتُونِي، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي، فَإِذَا أَنَا رَأَيْتُهُ، وَقَعْتُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، قُلْ: تُسْمَعْ سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ رَبِّي، ثُمَّ أَشْفَعُ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا فَأُخْرِجُهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَقَعُ سَاجِدًا، فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ، أَنْ يَدَعَنِي، ثُمَّ يُقَالُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ، قُلْ: تُسْمَعْ سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَحْمَدُ رَبِّي بِتَحْمِيدٍ يُعَلِّمُنِيهِ، ثُمَّ أَشْفَعُ، فَيَحُدُّ لِي حَدًّا، فَأُخْرِجَهُمْ مِنَ النَّارِ، وَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ، قَالَ: فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ، إِلَّا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ "، أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ، قَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ قَتَادَةُ: أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ.
ابو کامل فضیل بن حسین جحدری اور محمد بن عبید غبری نے کہا: (الفاظ ابو کامل کے ہیں) ہمیں ابو عوانہ نے قتادہ سےحدیث سنائی، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور وہ اس بات پر فکر مند ہوں گے (کہ اس دن کی سختیوں سے کیسے نجات پائی جائے؟) (ابن عبید نے کہا: ان کے دل میں یہ بات ڈالی جائے گی) او ر وہ کہیں گے: اگر ہم اپنے رب کے حضور کوئی سفارش لائیں تاکہ وہ ہمیں اس جگہ (کی سختیوں) سے راحت عطا کر دے۔ آپ نے فرمایا: چنانچہ وہ آدم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے اورکہیں گے: آپ آدم ہیں، تمام مخلوق کے والد، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں کہ وہ ہمیں اس (اذیت ناک) جگہ سے راحت دے۔ وہ جواب دیں گے: میں اس مقام پر نہیں، پھر وہ اپنی غلطی کو، جو ان سے ہو گئی تھی، یاد کر کے اس کی وجہ سے اپنےرب سے شرمندگی محسوس کریں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم نوح رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، وہ پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (لوگوں کی طرف) مبعوث فرمایا، آپ نے فرمایا: تو اس پر لوگ نوح رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے۔ وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں اور وہ اپنی غلطی کو، جس کا ارتکاب ان سے ہو گیا تھا، یادکرکے اس پر اپنے رب کی شرمندگی محسوس کریں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل (خالص دوست) بنایا ہے۔ وہ ابراہیم رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے اور وہ اپنی غلطی کو یادکریں گےجو ان سے سرزد ہو گئی تھی اور اس پر اپنے رب سے شرمندہ ہوں گے، (اور کہیں گے:) لیکن تم موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نےکلام کیا اور انہیں تورات عنایت کی۔ لوگ موسیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں گے، وہ کہیں گے کہ میں اس مقام پر نہیں اور اپنی غلطی کو، جو ان سے ہو گئی تھی، یاد کر کے اس پر اپنے رب سے شرمندگی محسوس کریں گے (او رکہیں گے:) لیکن تم روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔ لوگ روح اللہ اور اس کے کلمے عیسیٰ رضی اللہ عنہ کےپاس آئیں گے۔ وہ (بھی یہ) کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، وہ ایسے برگزیدہ عبد (بندت) ہیں جس کے اگلے پچھلے گناہ (اگر ہوتے تو بھی) معاف کیے جا چکے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ میرے پاس آئیں گے، میں اپنے رب (کے پاس حاضری) کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اجازت دی جائے گی، اسے دیکھتے ہی میں سجدے میں گر جاؤں گا، تو جب تک اللہ چاہے گا مجھے اس حالت (سجدہ) میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے، کہیے: آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے، آپ کودیاجائے گا، سفارش کیجیے، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب تعالیٰ کی ایسی حمد وستائش بیان کروں گا جو میرا رب عز وجل خود مجھے سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا۔ وہ میرے لیے حد مقرر کر دے گا، میں (اس کے مطابق) لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، پھر میں واپس آکر سجدے میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا، پھر کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !کہیے: آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے، آپ کو ملے گا، سفارش کیجیے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی وہ حمد کروں گا جومیرا رب مجھے سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا تووہ میرے لیے پھر ایک حد مقرر فرما دےگا، میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ نےکہا: مجھے یاد نہیں، آپ نے تیسری یا چوتھی بار فرمایا) پھر میں کہوں گا: اےمیرے رب! آگ میں ان کے سوا اور کوئی باقی نہیں بچا جنہیں قرآن نے روک لیا ہے، یعنی جن کا (دوزخ میں) ہمیشہ رہنا (اللہ کی طرف سے) لازمی ہو گیا ہے۔ ابن عبید نےاپنی روایت میں کہا: قتادہ نے کہا: یعنی جس کا ہمیشہ رہنا لازمی ہو گیا۔
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا، اور وہ اس کے لیے فکر مند ہوں گے۔ (کہ اس پریشانی سے کیسے نجات پائی جائے) ابنِ عبید نے کہا: اس غرض کے لیے (فکر) ان کے دل میں ڈالا جائے گا، تو وہ کہیں گے: اے کاش!ہم اپنے رب کے حضور کسی سفارشی کو لائیں؛ تاکہ وہ ہمیں اس جگہ سے آرام دلوائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدم ؑ کےپاس آئیں گے، اور کہیں گے: آپ آدمؑ ہیں! تمام مخلوق کے باپ، اللہ تعالی نے تجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور تیرے اندر اپنی روح ڈالی (یعنی اپنی پیدا کردہ روح)، اور فرشتوں کو حکم دیا، انھوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں، کہ وہ ہمیں اس جگہ سے (اس جگہ کی تکلیف سے) آرام پہنچائے۔ تو وہ جواب دیں گے: یہ میرا منصب نہیں (میں اس کے اہل نہیں)، تو وہ اپنی غلطی جس کا ارتکاب کیا تھا (یا اس کو بیان کر کے) اس کی بناء پر اپنے رب سے شرمائیں گے، لیکن تم نوح ؑ کے پاس جاؤ! وہ پہلا رسول ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو لوگ نوح ؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ جواب دیں گے: میں اس کا اہل نہیں ہوں، اور وہ اپنی غلطی جس کا ارتکاب کیا تھا، اس کو یاد کر کے اپنے رب سےشرمائیں گے، اور (کہیں گے) تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! جسے اللہ نے اپنا خلیل بنایا ہے۔ تو وہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ کہیں گے: یہ میرا مقام نہیں ہے اور وہ اپنی خطا کو یاد کریں گے جو ان سے ہوئی تھی، اور اس کی وجہ سے اپنے رب سے شرمائیں گے، اور کہیں گے: لیکن تم موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ! جن کو اللہ تعالیٰ نے کلام کرنے کا شرف بخشا، اور انھیں تورات عنایت کی۔ تو لوگ موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے، تو وہ بھی کہیں گے: میں اس کا حق دار نہیں، اور اپنی خطا جو ان سے ہوئی تھی یاد کر کے اپنے رب سے شرمائیں گے، اور کہیں گے: لیکن تم عیسیٰ روح اللہ اور اس کے کلمہ کے پاس جاؤ! تو لوگ عیسیٰؑ کے پاس آئیں گے، تو وہ بھی یہی کہیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، لیکن تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ! جو ایسا بندہ ہے، جس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کیے جا چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ میرے پاس آئیں گے، تو میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا، (تاکہ میں سفارش کر سکوں) تو مجھے اجازت دی جائے گی، تو جب میں اسے (اللہ تعالیٰ کو) دیکھوں گا، سجدہ میں گر جاؤں گا۔ تو جب تک وہ چاہے گا مجھے اس حالت میں چھوڑے گا، پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے! کہیے! آپ کی بات سنی جائے گی، مانگیے! دیے جاؤ گے، سفارش کیجیے! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں اپنا سر اٹھا لوں گا، اپنے رب کی ایسی حمد بیان کروں گا، جو میرا رب (اس وقت) سکھائے گا، پھر میں سفارش کروں گا، میرے لیے ایک حد مقرر کر دی جائے گی۔ میں (اسی حد کے مطابق) لوگوں کو آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا، پھر واپس آکر میں سجدہ ریز ہوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، اس حالت میں رہنے دے گا، پھر کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے اے محمد! کہیے! تمھاری بات سنی جائے گی۔ مانگیے! دیے جاؤ گے۔ سفارش کیجیے! تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ تو میں اپنا سر اٹھاؤں گا، اور اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا، جو وہ مجھے سکھائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا، تو وہ میرے لیے ایک حد مقرر فر دے گا، میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں: مجھے یاد نہیں آپ نے تیسری یا چوتھی دفعہ فرمایا: تو میں کہوں گا: اے میرے رب! آگ میں صرف وہی لوگ رہ گئے ہیں جنھیں قرآن نے روک لیا ہے، یعنی جن کے لیے دوزخ میں ہمیشگی ثابت ہے۔ ابنِ عبید نے اپنی روایت میں کہا: قتادہ نے کہا: جس کا ہمیشہ رہنا ضروری ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الرقاق، باب: صفة الجنة والنار برقم (6565) انظر ((التحفة)) برقم (4136)»
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 475  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
يَهْتَمُّونَ لِذَلِكَ:
اس کے لیے فکرمند ہوں گے (کہ ان کی پریشانی دور ہو) (2)
يُلْهَمُونَ لِذَلِكَ:
اس پریشانی سے بچنے کی فکر ان کے دلوں میں ڈالی جائے گی۔
(3)
لَسْتُ هُنَاكُمْ:
میں اس کا اہل نہیں،
یہ میرے مقام و مرتبہ سے بلند چیز ہے۔
(4)
خَلِيْلٌ:
جس کی محبت کامل اور آخری درجہ کی ہو،
جس میں کسی قسم کی کمی و نقص نہ ہو۔
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت آدمؑ جس غلطی کا تذکرہ فرمائیں گے،
اس سے مراد وہ درخت جس کےقریب جانے سے روکا گیا تھا،
اسےبھول کرکھاناہے۔
اورحضرت نوحؑ جس غلطی کا اظہار کریں گے،
اس سےمراد اپنے بیٹے کی سفارش کرنا ہے جس کی اجازت نہ تھی،
یا اس سے مراد وہ دعا ہے جو آپؑ نے اپنی قوم کی تباہی وبربادی کےلیے کی تھی،
اور ایک دعاتھی جس کی قبولیت یقینی تھی وہ آپ نےکرلی تھی۔
اورحضرت ابراہیمؑ ان تین کا تذکرہ کریں گے،
کہ میں نےتین دفعہ توریہ وتعریض سے کام لیاتھا۔
اورحضرت موسیٰؑ قبطی کےقتل کا تذکرہ کریں گے،
اورحضرت عیسیٰؑ یہ بیان کریں گے،
کہ دنیا میں مجھےمیرے ماننے والوں نےمعبود بنا لیاتھا،
یہ محض لوگوں کی توجہ ہٹانےکےلیے ہوں گی۔
اصل بات یہ ہے کہ سفارش کرنا،
آپ ﷺ کےلیے مخصوص ہے،
اس لیے آپ کی سواکوئی رسول یہ کام نہیں کرے گا۔
(2)
انبیاءؑ کا مقام ومرتبہ،
سب انسانوں سےبلند وبالا ہے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرداری میں بھی وہ سب سےبلندمقام پرفائزہیں،
اور ان کاعمل سب سے بہتر انداز میں پایا جاتا ہے۔
بعض اوقات غیرشعوری اورغیر ارادی طور پر ان سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں،
جو ان کے مقامِ رفیع سے فروتر ہوتے ہیں،
وہ اپنے بلند مقام کی بنا پر ان کے ارتکاب میں بھی شرم وعارمحسوس کرتےہیں،
انہیں افعال واعمال کی ذنب یا خطیئہ سےتعبیرکیاگیاہے،
عام انسانوں کے اعتبارسے ان میں کوئی قابل اعتراض چیزنہیں ہوتی۔
(3)
نوحؑ کو اول الرسل قرار دیا گیا ہے؛کیونکہ نوحؑ سے پہلے انبیاءؑ کے دور میں لوگ فطرت اسلام پر قائم تھے،
اس لیے ان کی طرف وحی امورتکوینہ یا امورمعاش،
زراعت اورصنعت وحرفت کےبارےمیں ہوتی تھی،
نیز نوحؑ سے پہلے بہت کم افرادکفر وشرک کےمرتکب ہوئے تھے،
ان کی قوم میں شرک وکفرعام ہوگیا،
اس لیے ان کی طرف وحی رسالت شروع ہوئی،
اورالہام شرعیہ کانزول ہوا،
اورمخالفین کوعذاب کی دھمکی دی گئی۔
یا اس لیے آپؑ کو اول الرسل کہا گیا ہے،
کہ سب سے پہلے انہی کی قوم پر عذاب نازل ہوا،
اور آپؑ ہی سب سے پہلے رسول ہیں،
جن کو ان کی قوم نے اذیت اورتکلیف سےدوچارکیا۔
(4)
شفاعت کبریٰ،
جس کےسبب تمام لوگوں کا حساب وکتاب شروع ہوگا،
وہ آپ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے،
اس لیے آپ سے پہلے کوئی نبی ورسول اس کےلیے تیارنہیں ہوگا،
اور جواب دے گا کہ یہ میرا منصب نہیں ہے یا میں اس کا اہل نہیں ہوں،
اور آخر کارتمام لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوں گے،
اور آپ اس کےلیے تیار ہوجائیں گے،
اورآپ اس کےلیے اللہ تعالیٰ سے اجازت طلب کریں گے،
اجازت ملنے کے بعد آپ کی سفارش سےتمام انسانوں کا حساب وکتاب وشروع ہوگا،
اورآپ ﷺ کی برتری وفضیلت کا تمام انسانوں کے سامنےظہورہوگا۔
(5)
شفاعت کبریٰ کے بعد آپ ﷺ اپنی امت کے گناہ گاروں کےبارےمیں سفارش فرمائیں گے،
اور اس سفارش کی مختلف صورتیں ہوں گی،
جہنم سےنکالنے کے لیے،
آپ چاربارسفارش فرمائیں گے،
اس کے بعدصرف وہ گناہ گا رہ جائیں گے،
جن کوصرف اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم ہی نکال سکے گا،
یاوہ لوگ ہوں گےجنہوں نے اپنے کفر وشرک کی بنا پر ہمیشہ کےلیےجہنم میں رہناہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 475