صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
119. بَابُ إِذَا لَمْ يُتِمَّ الرُّكُوعَ:
باب: اگر رکوع اچھی طرح اطمینان سے نہ کرے تو نماز نہ ہو گی۔
حدیث نمبر: 791
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ، قَالَ:" رَأَى حُذَيْفَةُ رَجُلًا لَا يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، قَالَ: مَا صَلَّيْتَ، وَلَوْ مُتَّ مُتَّ عَلَى غَيْرِ الْفِطْرَةِ الَّتِي فَطَرَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، سلیمان بن اعمش کے واسطہ سے کہا میں نے زید بن وہب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نہ رکوع پوری طرح کرتا ہے نہ سجدہ۔ اس لیے آپ نے اس سے کہا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی اور اگر تم مر گئے تو تمہاری موت اس سنت پر نہیں ہو گی جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 791  
791. حضرت زید بن وہب سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رکوع اور سجود کو پورا نہیں کر رہا تھا تو آپ نے اسے کہا: تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو اس دین فطرت کے خلاف مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو پیدا کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:791]
حدیث حاشیہ:
یعنی تیرا خاتمہ معاذ اللہ کفر پر ہو گا۔
جو لوگ سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس طرح خرابی خاتمہ سے ڈرنا چاہئے۔
سبحان اللہ اہل حدیث کا جینا اور مرنا دونوں اچھا۔
مرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کے سامنے شرمندگی نہیں۔
آپ کی حدیث پر چلتے رہے جب تک جئے خاتمہ بھی حدیث پر ہوا۔
(مولانا وحید الزماں ؒ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 791   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:791  
791. حضرت زید بن وہب سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رکوع اور سجود کو پورا نہیں کر رہا تھا تو آپ نے اسے کہا: تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو اس دین فطرت کے خلاف مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو پیدا کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:791]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے اس سے پوچھا:
تو کرنے عرصے سے اس طرح نماز پڑھ رہا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ چالیس برس سے اسی طرح نماز پڑھ رہا ہوں۔
(فتح الباري: 256/2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں رکوع اور سجود کو آرام اور سکون سے ادا کرنا چاہیے۔
ایسا کرنا فرض ہے۔
اس میں کوتاہی کرنا اپنی نماز کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔
(2)
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ رکوع کی حقیقت جھکنا اور سجدے کی حقیقت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے، اگر کوئی اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
لیکن یہ موقف احادیث کے خلاف ہے کیونکہ احادیث میں تعدیل ارکان کی بہت تاکید ہے۔
تعدیل ارکان یہ ہے کہ بدن ہئیت طبعی پر پہنچ جائے اور حرکت انتقال، سکون و اطمینان میں تبدیل ہو جائے۔
(3)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رکوع اور سجود کو ادھورا کرنے والے کے متعلق فرمایا:
تو نے نماز نہیں پڑھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسنون طریقے کے خلاف نماز خراب کر کے پڑھنے والے کو فرمایا تھا:
جاؤ، نماز دوبارہ پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔
(فتح الباري: 256/2) (4)
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ تعدیل و اطمینان ضروری ہے، اس کے بغیر فرض کی ادائیگی نہیں ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 791