صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
89. باب فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈراؤ۔
حدیث نمبر: 504
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أن أبا هريرة ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَ عَلَيْهِ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214: " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ، سَلِينِي بِمَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا "،
ابن مسیب اور ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتاری گئی: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں تو آپ نے فرمایا: اے قریش کےلوگو!اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو، میں اللہ تعالیٰ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے عبد المطلب کے بیٹے عباس! میں اللہ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا، اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا، اے اللہ کےرسول کے بیٹی فاطمہ! مجھ سے (میرے مال میں سے) جو چاہو مانگ لو، میں اللہ کے (فیصلےکے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم پر سورۂ شعراء کی آیت: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214) اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے قریش کی جماعت! اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو (ایمان لا کر نیک اعمال کر لو)، میں اللہ تعالی کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے عبدالمطلب کی اولاد! میں اللہ کے مقابلہ میں تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اے عبدالمطلب کے بیٹے عباس! میں اللہ کے مقابلہ میں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں تم سے اللہ کے عذاب کو نہیں ٹال سکتا، اے اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ! مجھ سے جو چاہو مانگ لو، میں اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آسکتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه) في الوصايا، باب: هل يدخل النساء والولد في الاقارب برقم (2753) تعليقا - وفي التفسير، باب: ﴿ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ برقم (4771) ايضا معلقا وأخرجه النسائي في ((المجتبي)) في الوصايا، باب اذا اوصي لعشيرته الأقربين 248/6 - انظر ((التحفة)) برقم (15328)»
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2753  
´روز قیامت اپنی نیکی ہی ہر انسان کے کام آئے گی `
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب (سورۃ الشعراء کی) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو (نیک اعمال کے بدل) مول لے لو (بچا لو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا (یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا) عبد مناف کے بیٹو! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/بَابُ هَلْ يَدْخُلُ النِّسَاءُ وَالْوَلَدُ فِي الأَقَارِبِ: 2753]

تخريج الحديث:
[123۔ البخاري فى: 55 كتاب الوصايا: 11 باب هل يدخل النساء والولد فى الأقارب 2705 مسلم 206]
فھم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی نیکی ہی ہر انسان کے کام آئے گی، روز قیامت کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا حتی کہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے مشرک رشتہ داروں کو نہیں بچا سکیں گے۔ قرآن میں ہے کہ «وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ» [الانعام: 164] (روز قیامت) کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ لہٰذا کسی پیر، فقیر، بزرگ، درویش، ولی اور امام پر تکیہ کر کے بلا جھجک گناہوں میں مصروف رہنا دانشمندی نہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 123   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3185  
´سورۃ الشعراء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين» اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص و عام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎، آپ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: اے قریش کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبد مناف کے لوگو! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو۔ کیونکہ م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3185]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ دوسری عام مجلس ہو گی،
اور پہلی مجلس خاص اہل خاندان کے ساتھ ہوئی ہو گی؟۔
2؎:
یعنی اس کا حق (اس دنیا میں) ادا کروں گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3185   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 504  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سورۂ شعراءمکی سورت ہےحضرت ابوہریرہ ؓ مدینہ میں سات ہجری میں مسلمان ہوئے،
اس لیے قریش مکہ سے خطاب کے وقت وہ موجودنہیں تھے،
اس لیے یہ روایت انہوں نےکسی دوسرےصحابی سےسنی ہوگی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 504