صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ -- ایمان کے احکام و مسائل
89. باب فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ}:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈراؤ۔
حدیث نمبر: 508
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 وَرَهْطَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى صَعِدَ الصَّفَا، فَهَتَفَ: يَا صَبَاحَاهْ، فَقَالُوا: مَنْ هَذَا الَّذِي يَهْتِفُ؟ قَالُوا: مُحَمَّدٌ، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا بَنِي فُلَانٍ، يَا بَنِي فُلَانٍ، يَا بَنِي فُلَانٍ، يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ، أَنَّ خَيْلًا تَخْرُجُ بِسَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ قَالُوا: مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ كَذِبًا، قَالَ: فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ "، قَالَ: فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِهَذَا، ثُمَّ قَامَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَقَدْ تَبَّ كَذَا، قَرَأَ الأَعْمَشُ إِلَى آخِرِ السُّورَةِ،
ابو اسامہ نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے عمرو بن مرہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے (خاص کر) اپنے خاندان کے مخلص لوگوں کو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکلے یہاں تک کہ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور پکار کر کہا: وائے اس کی صبح (کی تباہی) ِِ (سب ایک دوسرے سے) پوچھنے لگے: یہ کون پکا رہا ہے؟ (کچھ) لوگوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، چنانچہ سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد! اے عبدمناف کی اولاد! اے عبد المطلب کی اولاد! یہ لوگ آپ کےقریب جمع ہو گئے تو آپ نے پوچھا: تمہارا کیا خیال ہے ہے کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے گھڑ سوار نکلنے والے ہیں تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟ انہوں نے کہا: ہمیں آپ سے کبھی جھوٹی بات (سننے) کا تجربہ نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا: تو میں تمہیں آنےوالے شدید عذاب سے ڈرا رہا ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ابولہب کہنے لگا: تمہارے لیے تباہی ہو، کیا تم نے ہمیں اسی بات کے لیے جمع کیا تھا؟ پھر وہ اٹھ گیا۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی: ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے اور وہ خود ہلاک ہوا۔ اعمش نے اسی طرح سورت کے آخر تک پڑھا۔
حضرت ابنِ عباس ؓ سے روایت ہے: کہ جب یہ آیت اتری: اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔ اور ان میں سے خاص کر اپنے خاندان کے سچے اور مخلص لوگوں کو، تو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نکل کر صفا پہاڑ پر چڑھے اور بلند آواز سے فرمایا: "يَا صَبَاحَاهُ" دفاع کے لیے تیار ہو جاؤ! لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا: یہ کون آواز دے رہا ہے؟ جواب ملا: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد! اے عبد مناف کی اولاد! اے عبدالمطلب کی اولاد! یہ لوگ آپ کے قریب جمع ہو گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: بتاؤ! اگر میں تمھیں اطلاع دوں، کہ اس پہاڑ کے دامن سے گھڑ سوار نکلنے والے ہیں، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟ انھوں نے کہا: ہم نے تمھیں کبھی جھوٹا نہیں پایا۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں سخت عذاب (کی آمد) سے پہلے ڈرا رہا ہوں۔ تو ابو لہب نے کہا: تم ہلاک ہو جاؤ! کیا تو نے ہمیں اس خاطر جمع کیا تھا؟ پھر وہ کھڑا ہو گیا، تو اس پر یہ سورت اتری! ابو لہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے۔ یقیناً وہ خود ہلاک ہوا۔(سورۂ لہب) اعمش  نے پوری سورت قراءت کی اور "قَد" کے اضافے سے پڑھا۔ یعنی "قَد تَبَّ" پڑھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجنائز، باب: ذكر شرار الموتى برقم (1394) مختصراً - وفي المناقب، باب: من انتسب الى آبائه فى الاسلام والجاهلية برق (3526) وفي التفسير، باب: ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴾ برقم (4801) وفي، باب: ﴿ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴾ برقم (4971 و 4972 و 4973) والترمذى فى((جامعه)) في التفسير، باب: و من سورة ﴿ تَبَّتْ يَدَا ﴾ وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3363) انظر ((التحفة)) برقم (5594)»