مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 18
حدیث نمبر: 18
18 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ حَفِظْنَاهُ مِنْهُ غَيْرَ مَرَّةٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ يَقُولُ كَثِيرًا مَا يَقُولُ: ذَهَبْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ إِلَي الصُّبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ نَسْتَذْكِرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ الصُّبَيُّ: كُنْتُ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ فَخَرَجْتُ أُرِيدُ الْحَجَّ فَلَمَّا كُنْتُ بِالْقَادِسِيَّةِ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ جَمِيعًا، فَسَمِعَنِي سَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ فَقَالَا: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ، فَكَأَنَّمَا حُمِلَ عَلَيَّ بِكَلِمَتِهِمَا جَبَلٌ، فَلَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمَا فَلَامَهُمَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: «هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ» فَقَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي أَنَّهُ قَدْ جَمَعَ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجَازَهُ وَلَيْسَ أَنَّهُ فَعَلَهُ هُوَ
ابووائل شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں: میں اور مسروق، صبی بن معبد کے پاس گئے تاکہ ان سے اس حدیث کے بارے میں گفتگو کریں، تو صبی بولے: میں ایک عیسائی شخص تھا میں نے اسلام قبول کیا میں حج کرنے کے ارادے سے روانہ ہونے لگا، جب میں قادسیہ پہنچا تو وہاں میں نے حج اور عمرے دونوں کو ساتھ کرنے کا احرام باندھا (یا تلبہ پڑھا)۔
سلمان بن ربعیہ اور زید بن صوحان نے مجھے سنا، تو وہ بولے: یہ شخص اپنے گھر کے اونٹ سے زیادہ گمراہ ہے۔
ان کے ان کلمات کی وجہ سے گویا میرے اوپر پہاڑ کا وزن آ گیا، میری ملاقات جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے انہیں اس بارے میں بتایا، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان دونوں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں کو ملامت کی پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور بولے: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہے۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہے۔
سفیان کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج اور عمرہ اکھٹے ادا کیے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے درست قرار دیا تھا۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 3069، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3910، 3911، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2718، 2719، 2720، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3685، 3686، 3687، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1798، 1799، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2970، 2970 م، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8864، 8873، 8942، وأحمد فى «مسنده» برقم: 84، 171، 232، 260، والطبراني فى «الصغير» برقم: 531»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:18  
ابووائل شقیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں: میں اور مسروق، صبی بن معبد کے پاس گئے تاکہ ان سے اس حدیث کے بارے میں گفتگو کریں، تو صبی بولے: میں ایک عیسائی شخص تھا میں نے اسلام قبول کیا میں حج کرنے کے ارادے سے روانہ ہونے لگا، جب میں قادسیہ پہنچا تو وہاں میں نے حج اور عمرے دونوں کو ساتھ کرنے کا احرام باندھا (یا تلبہ پڑھا)۔ سلمان بن ربعیہ اور زید بن صوحان نے مجھے سنا، تو وہ بولے: یہ شخص اپنے گھر کے اونٹ سے زیادہ گمراہ ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:18]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج قران (ایک ہی احرام میں حج اور عمرہ کرنا، درمیان میں حلال نہ ہونا) مسنون ہے۔
علم سے ناواقف لوگ بعض دفعہ بےتکی باتوں پر لوگوں کو ملامت کرتے رہتے ہیں، ایسے لوگوں کو سخت تنبیہ کرنی چاہیے، جس طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے غلط مسئلہ بتانے والوں کو ڈانٹا تھا۔
نیت کا تعلق دل سے ہے، خواہ نیت حج و عمرہ کی ہو یا نماز وغیرہ کی۔ بعض لوگ «لبيك حـجـا» کو نیت سے تعبیر کرتے ہوئے حج یا عمرہ کی نیت کو زبان کے ساتھ کرنے پر دلیل بناتے ہیں، حالانکہ «لبيك حجا» نماز کے شروع میں «الله اكبر» کی مثل ہے، جس طرح اللہ اکبر کہہ کر نماز میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح حج میں «لبيك حـجـا» کہہ کر داخل ہوتے ہیں۔ یہ حدیث مفصل سنن ابی داود (1799) میں ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ صُبی رحمہ اللہ نے کہا: حتٰی کہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: اے امیر المؤمنین! میں ایک بدوی نصرانی آدمی تھا اور میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ جہاد پر جانے کا حریص ہوں مگر میں نے دیکھا کہ حج اور عمرہ بھی مجھ پر واجب ہو چکا ہے، تو میں اپنی قوم کے ایک آدمی کے پاس آیا، اس نے مجھے کہا: حج اور عمرہ اکٹھے کر لو اور جو میسر ہو قربانی کر لو۔ چنانچہ میں نے ان دونوں کا اکٹھے تلبیہ پکارا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھیں تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی ہدایت ملی ہے۔
حج کی تینوں قسمیں (افراد، تمتع، قران) جائز ہیں، ان کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر آئے گی، ان شاء اللہ۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ غلطی کرنے والے کو اچھے طریقے سے اس کی غلطی پر متنبہ کرنا چاہیے ورنہ اسے پریشانی ہوتی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صبی رحمہ اللہ کی موجودگی میں دونوں حضرات کو سخت لہجے میں تنبیہ فرمائی تا کہ صبی رحمہ اللہ کی جو دل آزاری ہوئی ہے، اس کی تلافی ہو جائے اور دونوں بزرگ بھی آئندہ فتوی دینے میں احتیاط سے کام لیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 18