مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 22
حدیث نمبر: 22
22 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَمَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّهُ سَمِعَ مَالِكَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: «إِنَّ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ كَانَتْ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَي رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفِ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ» فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَي أَهْلِهِ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ وَمَا بَقِي جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ" قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَكَانَ سُفْيَانُ إِنَّمَا قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: يَحْبِسُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ
مالک بن اوس بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: بنو نضیر کی زمینیں وہ ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مال فے کے طور پر عطا کی تھیں۔ مسلمانوں نے ان کے لیے گھوڑے نہیں دوڑائے تھے سواریاں نہیں دوڑائیں تھیں یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمدن میں سے اپنے اہل خانہ کے سال بھر کا خرچ حاصل کرتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا اسے گھوڑوں اور اسلحے کے لئے، یعنی اللہ کی راہ میں تیاری کے لیے استعمال کرتے تھے۔
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے اس روایت میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے سال بھر کا خرچ روک لیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى الجهاد 4290، ومسلم فى الجهاد والسير 1757، وأبو داود فى الخراج 2965، والترمذي فى الجهاد 1719، والنسائي فى قسم الفيء، وفي الكبرى فى التفسير 484/6 برقم 11576،ولتمام تخريجه انظر وأبو يعلى فى ”مسنده“: 2، 4، وصحيح ابن حبان 6357، 6608، وأحمد 25/1، وابن حبان فى صحيحه 6357، من طريق سفيان، بهذا الإسناد وأخرجه أحمد 25/1»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:22  
مالک بن اوس بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: بنو نضیر کی زمینیں وہ ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مال فے کے طور پر عطا کی تھیں۔ مسلمانوں نے ان کے لیے گھوڑے نہیں دوڑائے تھے سواریاں نہیں دوڑائیں تھیں یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمدن میں سے اپنے اہل خانہ کے سال بھر کا خرچ حاصل کرتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا اسے گھوڑوں اور اسلحے کے لئے، یعنی اللہ کی راہ میں تیاری کے لیے استعمال کرتے تھے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:22]
فائدہ:
سنن ٱبی داود (2963) میں اس حدیث میں ایک لمبا واقعہ ہے، جس کا اس حدیث کو سمجھنے میں اہم تعلق ہے، ہم اس کو ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں تا کہ قارئین کے سامنے مفصل حدیث ہو۔
سیدنا مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا بھیجا، جبکہ دن چڑھ آیا تھا۔ میں ان کے پاس آیا تو دیکھا کہ کھری چارپائی پر بیٹھے ہیں (اس پر کوئی بچھونا نہیں ہے)، انھوں نے میرے داخل ہوتے ہی کہا: اے مالک! تیری قوم کے کچھ لوگ اپنے اہل و عیال سمیت آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے پاس پہنچے ہیں، میں نے ان کے لیے کسی قدر مال کا کہہ دیا ہے، تو وہ ان میں تقسیم کر دو۔ میں نے کہا: اگر آپ یہ کام میرے سوا کسی اور سے کہہ دیں (تو بہتر ہے۔) انھوں نے کہا: تم ہی اسے کرو، اتنے میں (ان کا خادم) یرفا آ گیا۔ اس نے کہا: اے امیر المومنین! سیدنا عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں، تو انھوں نے کہا: ہاں، اور ان کے لیے اجازت دے دی، تو وہ بھی اندر آ گئے۔ یرفا پھر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم بھی آئے ہیں۔ آپ نے کہا: ہاں، ہاں اور ان کے لیے اجازت دے دی، تو وہ بھی اندر آ گئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! میرے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کر دیں۔ اہل مجلس میں سے کچھ نے کہا: ہاں، اے امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیں، اور انھیں راحت دیں۔ سیدنا مالک بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ ان دونوں ہی نے دیگر حضرات کو اس مقصد کے لیے بھیجا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ذرا ٹھہرو، اور اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم (انبیاء) لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو بھی چھوڑ جائیں، وہ صدقہ ہوتا ہے؟ ان سب نے کہا: ہاں (یہ سچ ہے)، پھر آپ سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تمھیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم (انبیاء) لوگوں کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو بھی چھوڑ جائیں، وہ صدقہ ہوتا ہے؟ ان دونوں نے کہا: ہاں (یہ سچ ہے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خصوصیت عطا فرمائی تھی، جو عام لوگوں میں سے کسی اور کو عطا نہیں کی گئی تھی، اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
«وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎» [الحشر: 6]
اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی طرف پھیر دیا ہے، اس پر تم نے نہ گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنونضیر کے اموال دیے تھے، تو اللہ کی قسم! وہ آپ نے لوگوں کو چھوڑ کر اپنے لیے مختص نہیں کیے تھے، اور نہ تمھارے بغیر خود ہی رکھے تھے کہ تمھیں اس میں سے کچھ نہ دیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنا ایک سال کا خرچ اور اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچ لیا کرتے تھے اور باقی ماندہ کو دیگر اموال کی طرح خرچ کرتے تھے۔ پھر وہ اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمھیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم لوگ یہ جانتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہاں، پھر وہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمھیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں، کیا تم لوگ یہ جانتے ہو؟ ان دونوں نے کہا: ہاں۔ (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی (ان کی طرف سے معاملے کا ذمہ دار ہوں) تو تم (سیدنا عباس رضی اللہ عنہ) اور یہ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تم اپنے بھتیجے کی وراثت سے اپنا حصہ اور میراث مانگتے تھے، اور یہ اپنی بیوی (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) کا ان کے والد کی میراث سے حصہ طلب کر رہے تھے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم کوئی وراثت نہیں چھوڑتے، ہم جو بھی چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے، اور اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ وہ (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) سچے اور صالح تھے، ہدایت یافتہ اور حق کے تابع تھے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مال کے نگران بنے رہے، جب ان کی وفات ہو گئی تو میں نے کہا: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں ہو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، اس کا نگران اور منتظم رہا ہوں، پھر تم اور یہ آئے اور تم دونوں متفق تھے اور تمھاری بات بھی ایک تھی کہ اس کا مجھ سے مطالبہ کر رہے تھے، تو میں نے کہا: اگر تم چاہو تو میں یہ اموال تمھارے حوالے کر دیتا ہوں مگر تمہیں اللہ کے نام کا عہد دینا ہو گا کہ اس کا انتظام اسی طرح کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، اس عہد پر تم نے مجھ سے اسے لیا، اس کے بعد تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ تم دونوں میں دوسرا فیصلہ کروں، اللہ کی قسم! میں تمھارے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کروں گا، خواہ قیامت آ جائے۔ اگر تم اس کا انتظام سنبھالنے سے عاجز ہو تو مجھے واپس کر دو۔
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان دونوں حضرات کا سوال یہ تھا کہ اس کا انتظام با قاعدہ طور پر ان دونوں کے مابین آدھا آدھا کر دیا جائے، یہ بات نہیں کہ وہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے لاعلم تھے، کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو کچھ ہم چھوڑ جائیں، وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔ وہ دونوں بھی حق وصواب ہی چاہتے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس مال پر تقسیم کا نام نہیں دوں گا، میں اسے ایسے ہی رہنے دوں گا جیسے کہ یہ ہے۔ اس حدیث میں اختلاف کی تفصیل بھی موجود ہے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سمجھانے کا حکیمانہ انداز اور ان کا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت قدمی اختیار کرنے کا بھی واضح ثبوت ہے۔
اختلاف کی صورت میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنا فرض ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 22