صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
126. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 797
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" لَأُقَرِّبَنَّ صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقْنُتُ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ وَصَلَاةِ الْعِشَاءِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ بَعْدَ مَا يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَيَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَلْعَنُ الْكُفَّارَ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے ہشام دستوائی سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ لو میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے قریب قریب کر دوں گا۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ظہر، عشاء اور صبح کی آخری رکعات میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔ «سمع الله لمن حمده» کے بعد۔ یعنی مومنین کے حق میں دعا کرتے اور کفار پر لعنت بھیجتے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1440  
´فرض نماز میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! میں تم لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے قریب ترین نماز پڑھوں گا، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر کی آخری رکعت میں اور عشاء اور فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے اور مومنوں کے لیے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت بھیجتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1440]
1440. اردو حاشیہ: اس سے مراد ایسی دعا ہے جو مسلمانوں اور امت سے متعلق ہو مثلا اسلام اور مسلمانوں کے لئے نصرت مجاہدین کے لئے ثابت قدمی اور کامیابی یا کسی وبا اور مصیبت عامہ سے نجات کی دعا یا کفار کے لئے بد دعا اسے اصطلاحاً دعائے قنوت نازلہ کہتے ہیں۔ اسے پانچوں فرض نمازوں میں حسب ضرورت آخری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھا جا سکتا ہے۔ امام جہری (بلند) آوا ز میں دُعا پڑھے۔ اور مقتدی آمین کہیں۔ امام حسب احوال دعا کرائے۔ جہاں نام لینے کی ضرورت ہو نام بھی لے سکتا ہے۔ اس دعائے قنوت نازلہ میں دوام نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1440   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 797  
797. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: یقینا میں ایسی نماز پڑھتا ہوں جو نبی ﷺ کی نماز سے مشابہ ہو، چنانچہ ابوہریرہ ؓ ظہر، عشاء اور فجر کی آخری رکعت میں سمع الله لمن حمده کے بعد قنوت پڑھا کرتے تھے جس میں اہل ایمان کے لیے دعا فرماتے اور کفار پر لعنت کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:797]
حدیث حاشیہ:
کچھ غداروں نے چند مسلمانوں کو دھوکا سے بئر معونہ پر شہید کر دیا تھا۔
آنحضرت ﷺ کو اس حادثہ سے سخت صدمہ ہوا اور آپ نے ایک ماہ تک ان پر بددعا کی اور ان پر مسلمان کی رہائی کے لیے بھی دعا فرمائی جو کفار کے ہاں مقید تھے۔
یہاں اسی قنوت کا ذکر ہے۔
جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو ہر نماز میں آخر رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 797   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:797  
797. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: یقینا میں ایسی نماز پڑھتا ہوں جو نبی ﷺ کی نماز سے مشابہ ہو، چنانچہ ابوہریرہ ؓ ظہر، عشاء اور فجر کی آخری رکعت میں سمع الله لمن حمده کے بعد قنوت پڑھا کرتے تھے جس میں اہل ایمان کے لیے دعا فرماتے اور کفار پر لعنت کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:797]
حدیث حاشیہ:
:
(1)
حضرت ابو ہریرہ ؓ کے انداز سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پوری حدیث مرفوع کے حکم میں ہے کیونکہ آپ کے یہ الفاظ ہیں:
میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی طرح نماز پڑھتا ہوں۔
(عمدة القاري: 532/4) (2)
امام بخاری ؒ اس حدیث کے بعد حضرت انس ؓ کی حدیث لائے ہیں تاکہ اس بات کی طرف اشارہ ہو جائے کہ قنوت نازلہ کسی ایک نماز کے ساتھ خاص نہیں، نیز اس حدیث میں قنوت کے آخری رکعت میں ہونے کا ذکر ہے لیکن آگے ایک حدیث میں وضاحت ہے کہ قنوت بعد از رکوع قومہ میں ہوا کرتی تھی۔
(فتح الباري: 369/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 797