مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 115
حدیث نمبر: 115
115 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَنْكِحْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَا فَلْيَصُمْ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ»
115- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ فرمایا: اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو شخص شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ یہ چیز نگاہ کو جھکا کر رکھتی ہے اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرتی ہے اور جو شخص اس کی استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، کیونکہ روزے اس کی شہوت کو ختم کردیں گے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1905 ومسلم: 1400، وابن حبان فى ”صحيحه“: برقم: 4026، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5110، 5192»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:115  
115- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ فرمایا: اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو شخص شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ یہ چیز نگاہ کو جھکا کر رکھتی ہے اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرتی ہے اور جو شخص اس کی استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، کیونکہ روزے اس کی شہوت کو ختم کردیں گے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:115]
فائدہ:
(سـنـن ابـن ماجه: 1845) میں اس حدیث میں ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ علقمہ بن عاص تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں منی میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کو الگ لے گئے۔ میں پاس بیٹھا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں ایک کنواری لڑکی سے آپ کی شادی کروا دوں، جس سے آپ کو گزرے وقت کی کچھ باتیں یاد آجائیں؟ جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو محسوس ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے سوا کوئی کام نہیں، (جس کی وجہ سے وہ انھیں الگ لے کر گئے تھے) تو مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا، میں حاضر ہوا تو وہ فرما رہے تھے: اگر آپ نے یہ بات کہی ہے تو بالکل درست کہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔
اس مطول حدیث سے کچھ باتیں ثابت ہوتی ہیں: اس حدیث سے زندگی کا ایک اہم پہلو اجاگر ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دالانی چاہیے، تا کہ معاشرہ درست رہے۔ الباءۃ سے مراد جماع اور نان و نفقہ ہے۔ اگر انسان میں قوت جماع نہیں ہے تو اس کو نکاح کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر قوت جماع ہے لیکن نان و نفقہ کی استطاعت نہیں ہے، تو ان کے حصول تک برائی سے بچنے کی خاطر نفلی روزوں سے کام لے۔ شادی کے بے شمار مقاصد ہیں، دو کا ذکر اس حدیث میں ہوا ہے: ➊ نظروں کی حفاظت ➋ شرم گاہ کی حفاظت۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 115