صحيح مسلم
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- طہارت کے احکام و مسائل
8. باب الإِيتَارِ فِي الاِسْتِنْثَارِ وَالاِسْتِجْمَارِ:
باب: ناک میں طاق مرتبہ پانی ڈالنا، اور طاق مرتبہ استنجاء کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 560
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ جميعا، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا اسْتَجْمَرَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَسْتَجْمِرْ وِتْرًا، وَإِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ، فَلِيَجْعَلْ فِي أَنْفِهِ مَاءً، ثُمَّ لِيَنْتَثِرْ ".
اعرج نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی ٹھوس چیز (پتھر، ڈھیلا، ٹائلٹ پیپر وغیرہ) سے استنجا کرے تو طاق عدد میں کرے اور جب تم میں سے کوئی وضو کرے توناک میں پانی ڈالے، پھر ناک جھاڑے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ڈھیلے استعمال کرے، تو طاق ڈھیلے استعمال کرے، اور جب تم میں سے کوئی وضو کرے، تو ناک میں پانی ڈالے پھر ناک صاف کرے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه) في الوضوء، باب الاستجمار وترا برقم (162) مطولا وابوداؤد في ((سننه)) في الطهارة، باب: فى الاستنثار برقم (140) والنسائي في ((المجتبى)) 65/1-66 في الطهارة، باب: اتخاذ الاستنثار - انظر ((التحفة)) برقم (13689 و 13820)» ‏‏‏‏
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 35  
´نیند سے بیدار ہونے پر اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالنے کا حکم`
«. . . ‏‏‏‏إذا استيقظ احدكم من نومه فلا يغمس يده في الإناء حتى يغسلها ثلاثا،‏‏‏‏ فإنه لا يدري اين باتت يده . . .»
. . . تم میں سے جب کوئی نیند سے بیدار ہو تو تین مرتبہ دھونے سے پہلے اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالے۔ کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں کہ رات بھر ہاتھ کہاں کہاں گردش کرتا رہا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 35]

لغوی تشریح:
«فَلَا يَغْمِسُ» میم کے کسرہ کے ساتھ ہے اور اس کے معنی ہیں: داخل نہ کرے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم استحباب پر مبنی ہے مگر امام احمد رحمہ اللہ اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ جمہور کی رائے ہی اقرب الی الصواب ہے۔ البتہ جب اسے یقین حاصل ہو جائے کہ اس کا ہاتھ نجاست و گندگی سے آلودہ ہوا ہے تو ہاتھ دھونا ضروری ہے۔ نیز یہ مقدمات وضو میں سے بھی ہے۔

فائدہ:
حدیث میں مذکور لفظ «فِي الْإِنَاءِ» اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص شب و روز میں جس وقت نیند سے اٹھے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے تین مرتبہ دھو لے۔ یہ حکم ہر قسم کے برتن کے لیے ہے البتہ نہر اور بڑا حوض و تالاب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان میں ہاتھ داخل کرنا جائز ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی رائے بیان کی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 35   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 42  
´ڈھیلوں سے استنجا کرے تو طاق (تین عدد) استعال کرے`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من توضا فليستنثر، ومن استجمر فليوتري . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص وضو کرے تو ناک چھنک کر صاف کرے اور جو ڈھیلے سے استنجا کرے تو طاق عدد یعنی تین پانچ ڈھیلے استعمال کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 42]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 237، من حديث ما لك به ورواه البخاري 161، من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے پھر ناک چھنک کر صاف کرے اور جو شخص ڈھیلوں سے استنجا کرے تو طاق (تین عدد) استعال کرے۔ دیکھئے: [الموطا حديث: 320، و سنده صحيح ورواه البخاري: 162]
➋ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ وضو میں چہرہ دھونا، دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھونا، سر کا مسح کرنا اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھونا فرض ہے صرف پاؤں کے دھونے کے بارے میں شیعہ نے اختلاف کیا ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 31/4]
➌ وضو کے وقت ناک میں پانی ڈالنے کو استنشاق اور ناک سے اس پانی کے باہر نکالنے کو استنثار کہتے ہیں۔ [التمهيد 33/4]
➍ بعض علماء کہتے ہیں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے اور بعض کہتے ہیں کہ فرض ہے۔
● یہ کہنا کہ یہ عمل وضو میں سنت ہے اور غسل میں فرض ہے، بالکل بلا دلیل ہے۔
➎ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہےکہ آپ نے کبھی کلی یا ناک میں پانی ڈالے بغیر وضو کیا ہو۔
➏ بہتر یہی ہے کہ ایک چلو ہی سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے جیسا کہ صحيح بخاري [191]، صحيح مسلم [235] دارالسلام: [555] سے ثابت ہے اور اگر کوئی شخص علیحدہ چلو سے کلی کرے اور علیحدہ چلو سے ناک میں پانی ڈالے تو یہ بھی صحیح ہے جیسا کہ محدث ابن ابی خثیمہ کی التاريخ الكبير [ص 588 ح 1410] والی حسن لذاته مرفوع روایت سے ثابت ہے۔
➐ کلی دائیں ہاتھ سے کرنی چاہئے۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد: 112، وسنده صحيح]
➑ ناک بائیں ہاتھ سے صاف کرنی چاہئے۔ [سنن النسائي 67/1 ح 91 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 75   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 35  
´نیند سے بیداری پر ہاتھ دھونا`
«. . . 319- مالك عن أبى الزناد عن الأعرج عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا استيقظ أحدكم من نومه، فليغسل يده قبل أن يدخلها فى وضوئه، فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده . . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نیند سے بیدار ہو تو وضو کے پانی میں اپنا ہاتھ داخل کرنے سے پہلے اسے دھوئے کیونکہ اسے پتا نہیں کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 35]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 162، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ تھوڑا پانی (جو دو قُلّوں سے کم ہو) نجاست گرنے سے ناپاک ہو جاتا ہے۔
➋ وضو سے پہلے علیحدہ پانی لے کر دونوں ہاتھ دھونا بہتر ہے۔
➌ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیٹھ کر سو جاتے تو دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے اور اسی وضو سے نماز پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [الموطأ 22/1 ح 39]
وسندہ صحیح لیکن بہتر یہی ہے کہ بیٹھ کر سوئے یا لیٹ کر، دونوں حالتوں میں دوبارہ وضو کرنا چاہئے۔
● سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مرفوع حدیث: «وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ» سے ثابت ہوتا ہے کہ مطلقاً نوم (نیند) سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس حدیث کے لئے دیکھئے: [سنن الترمذي 3536 وقال: هذا حديث حسن صحيح وسنده حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 319   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 161  
´پتھروں کے ساتھ استنجاء`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ، وَمَنِ اسْتَجْمَرَ فَلْيُوتِرْ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وضو کرے اسے چاہیے کہ ناک صاف کرے اور جو پتھر سے استنجاء کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد (یعنی ایک یا تین یا پانچ ہی) سے کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الاِسْتِنْثَارِ فِي الْوُضُوءِ: 161]

تخريج الحديث:
[137۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 25 باب الاستنثار فى الوضوء 161، مسلم 237، أبوداود 140]
لغوی توضیح:
«اسْتَجْمَرَ» پتھروں کے ساتھ استنجاء کرے۔
«فَلْيُوْتِرْ» طاق عدد (یعنی تین یا پانچ وغیرہ) میں کرے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 88  
´ناک جھاڑنے کا حکم۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو وضو کرے تو اسے چاہیئے کہ ناک جھاڑے، اور جو استنجاء میں پتھر استعمال کرے تو اسے چاہیئے کہ طاق استعمال کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 88]
88۔ اردو حاشیہ:
➊ ناک کی صفائی تبھی ممکن ہے جب پانی ناک میں چڑھانے کے بعد سانس اور ہاتھ کی مدد سے ناک کو جھاڑا جائے تاکہ پانی کے ساتھ ساتھ ناک کی غلاظت بھی باہر آ جائے۔ سونے کے دوران میں تو لازماً ناک کے اوپر والے حصے می غلاظت جمع ہو جاتی ہے، اس لیے ناک جھاڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
➋ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق رحمہ اللہ نے استنثار کو واجب قرار دیا ہے۔ ظاہر الفاظ ان کی تائید کرتے ہیں، نیز ترجمۃ الباب سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 88   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 560  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
اسْتَجْمَرَ:
جِمَارٌ (چھوٹے پتھر)
سے بول و پیشاب کی جگہ صاف کرنا،
استنجا کرنا۔
(2)
لِيَنْتَثِرْ:
الَاسْتِنْثَارِ ناک میں پانی ڈالنے کے بعد،
ناک صاف کرنا،
اس سے بینی وغیرہ نکالنا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 560