مسند الحميدي
أَحَادِيثُ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول روایات

حدیث نمبر 233
حدیث نمبر: 233
233 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ وَكَانَ مِنْ جَيِّدِ مَا يَرْوِيهِ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ، وَبَنَي بِي وَأَنَا بِنْتُ تِسْعٍ»
233- ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میرے ساتھ شادی کی تو اس وقت میں چھ سال کی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) سات سال کی تھی اور جب میری رخصتی ہوئی تو اس میں نو سال کی تھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى «‏‏‏‏مناقب الأنصار» ‏‏‏‏ 3894، - واطرافه -، ومسلم فى النكاح 1422 وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم4673، وانظر أيضا «صحيح ابن حبان برقم 7097»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:233  
فائدہ:
اس حدیث میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نو (9) سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رخصتی کا ذکر ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ تھوڑی عمر میں بھی لڑکی کی شادی کرنا درست ہے، بشرطیکہ وہ شادی کے اہل ہو، امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ انھیں کھجور اور مکھن کھلاتی تھیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میری والدہ مجھے موٹا کرنے کی تدبیر کرتی تھیں تاکہ میری رخصتی کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کریں، لیکن کسی تدبیر سے یہ مقصد حاصل نہ ہوا حتٰی کہ میں نے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھائی تو میں انتہائی مناسب انداز کی فربہ ہوگئی۔ (سنن ابی داود: 3093ـ سـنـن ابن ماجه: 3324) یہ حدیث صحیح ہے۔
قصاء سے مراد کھیرا اور ککڑی ہے، اور ککڑی کو پنجابی میں تر کہتے ہیں۔ بعض منکرین حدیث کا صحیح حدیث پر بے جا اعتراض کر نا فضول ہے، صحيح حدیث پر ایمان لانا فرض ہے، اور منکرین حدیث کا رد کرنا جہاد ہے، امام ابوبکر عبداللہ بن الزبير الحمیدی (متوفی 219ھ) رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر میں ان لوگوں سے جہاد کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث رد کرتے ہیں، تو میرے نزدیک ان جیسے (کافر) ترکوں سے جہاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 233