صحيح مسلم
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- طہارت کے احکام و مسائل
10. باب وُجُوبِ اسْتِيعَابِ جَمِيعِ أَجْزَاءِ مَحَلِّ الطَّهَارَةِ:
باب: تمام اعضاء وضو کو مکمل طور پر دھونے کا وجوب۔
حدیث نمبر: 576
حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، " أَنَّ رَجُلًا تَوَضَّأَ، فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى قَدَمِهِ، أَبْصَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ، فَرَجَعَ، ثُمَّ صَلَّى ".
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ایک شخص نے وضو کیا تو اپنے پاؤں پر ایک ناخن جتنی جگہ چھوڑ دی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا اور فرمایا: واپس جاؤ اور اپنا وضو خوب اچھی طرح کرو- وہ واپس گیا، (حکم پر عمل کیا) پھر نماز پڑھی۔
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں، کہ مجھے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بتایا: کہ ایک انسان نے وضو کیا، تو اپنے پاؤں سے ایک ناخن کے بقدر جگہ کو چھوڑ دیا، نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا اور فرمایا: واپس جا کر اچھی طرح وضو کر کے آؤ۔ تو وہ واپس گیا پھر (آکر) نماز پڑھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه في ((سننه)) في الطهارة، وسننها، باب: من توضا فترك موضعا لم يصبه الماء برقم (666) انظر ((التحفة)) برقم (10421)»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 50  
´سارا پاؤں دھونا فرض`
«. . . راى النبى صلى الله عليه وآله وسلم رجلا وفي قدمه مثل الظفر لم يصبه الماء،‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ارجع فاحسن وضوءك . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے آدمی پر پڑی جس کے پاؤں کی ناخن برابر جگہ پر پانی نہ پہنچا (یعنی خشک رہ گئی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ واپس جاؤ اور اچھی طرح عمدہ طریق سے وضو کرو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 50]

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ سارا پاؤں دھونا فرض۔
➋ ایک دوسری حدیث میں ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ پاؤں کا جتنا حصہ خشک رہ گیا اس کے لئے آگ ہے۔ [صحيح مسلم، الطهارة، باب وجوب غسل الرجلين بكماله، حديث: 241]
➌ ابوداود میں بھی خالد بن معدان سے ایک روایت اسی معنی میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا کہ اس کے قدم کی پشت پر تھوڑا سا خشک داغ تھا۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ جا، پہلے دوبارہ وضو کر اور پھر نماز پڑھ۔ [سنن ابي داؤد، الطهارة، باب تفريق الوضوء، حديث: 175]
➍ یہ اور اسی قبیل کی دوسری روایات اس پر دال ہیں کہ پاؤں کا دھونا فرض ہے، مسح ناکافی ہے۔
➎ انہی احادیث کی روشنی میں ائمہ اربعہ، اہل سنت اور مجتہدین امت نے بالاتفاق پاؤں کے دھونے کو فرض قرار دیا ہے۔ جو لوگ پاؤں کے دھونے کو فرض قرار نہیں دیتے اور مسح کے قائل ہیں ان احادیث سے ان کے نظریے کی تردید ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 50   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 576  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا،
وضو کے ہر عضو کو پورے طور پر دھویا جائے،
کسی عضو کا معمولی سا حصہ بھی خشک نہ رہے،
اگر ذرہ برابر جگہ بھی چھوڑ دی گئی،
تو وضو نہیں ہوگا اور اگر وضو نہیں ہے،
تو ظاہر ہے نماز نہیں ہوگی،
کیونکہ وضو نماز کےلیے شرط ہے۔
اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا،
پاؤں کا دھونا ضروری ہے،
اگر پاؤں کا مسح ہوتا،
تو ناخن کے بقدر رہ جانے والی جگہ نظر نہ آتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 576