مسند الحميدي
أَحَادِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -- سیدنا رافع بن حدیج انصاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

حدیث نمبر 410
حدیث نمبر: 410
410 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي حَنْظَلَةُ بْنُ قَيْسٍ الزُّرَقِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ يَقُولُ: «كُنَّا أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ حَقْلًا وَكُنَّا نَقُولُ لِلَّذِي نُخَابِرُهُ لَكَ هَذِهِ الْقِطْعَةُ وَلَنَا هَذِهِ الْقِطْعَةُ يَزْرَعُهَا لَنَا فَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ هَذِهِ وَلَمْ تُخْرِجْ هَذِهِ» فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَمَّا بِوَرِقٍ فَلَمْ يَنْهَنَا" فَقِيلَ لِسُفْيَانَ: فَإِنَّ مَالِكًا يَرْوِيهِ عَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ حَنْظَلَةَ وَمَا كَانَ يَرْجُو أَنَّهُ إِذَا كَانَ عِنْدَ يَحْيَي وَيَحْيَي أَحْفَظُهُمَا لَكِنَّا حَفِظْنَاهُ مِنْ يَحْيَي
410- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انصار میں ہمارے پاس سب سے زیادہ کھیت تھے، ہم لوگ جسے ٹھیکے پر زمین دیتے تھے، اسے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں یہ والا حصہ ملتا ہے اور حصے کی پیدوار ہماری ہوگی، تو بعض اوقات اس حصے میں پیداوار ہوجاتی تھی اور اس حصے میں نہیں ہوتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کردیا۔ جہاں تک چاندی کے عوض میں (زمین کو ٹھیکے پر دینے کا تعلق ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہمیں منع نہیں کیا۔
سفیان سے کہا گیا: امام مالک نے یہ روایت ربیعہ کے حوالے سے حنظلہ نامی راوی سے نقل کی ہے، تو وہ بولے: جب یہ یحییٰ کے پاس سے مل سکتی ہے، تو پھر کسی اور کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ یحییٰ زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہیں اور ہم نے یہ روایت یحییٰ سے سن کر ہی محفوظ کی ہے۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح أخرجه البخاري فى «الحرث والمزارعة» ‏‏‏‏ برقم: 2286،2327، 2332،2339،2343،2345،2346،2722،4012، ومسلم فى «البيوع» برقم: 1536،1547، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2624 وابن حبان فى «صحيحه» ‏‏‏‏ برقم: 5191،5193،5194،5196،5197»
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:410  
410- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انصار میں ہمارے پاس سب سے زیادہ کھیت تھے، ہم لوگ جسے ٹھیکے پر زمین دیتے تھے، اسے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں یہ والا حصہ ملتا ہے اور حصے کی پیدوار ہماری ہوگی، تو بعض اوقات اس حصے میں پیداوار ہوجاتی تھی اور اس حصے میں نہیں ہوتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کردیا۔ جہاں تک چاندی کے عوض میں (زمین کو ٹھیکے پر دینے کا تعلق ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہمیں منع نہیں کیا۔ سفیان سے کہا گیا: امام مالک نے یہ روایت ربیعہ کے حوالے سے حنظلہ نامی راوی سے نقل کی ہے، تو وہ بولے: جب یہ یحییٰ کے پاس سے مل سکتی ہے، تو پھر کسی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:410]
فائدہ:
مخابرہ مزارعت کے ہم معنی ہے بلکہ مساقات، مزارعہ اور مخابرہ ایک ہی معنی میں ہیں۔ مزارعت ان کاموں میں سے ہے جو لوگوں میں زمانہ قدیم سے جاری ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کچھ درختوں کا مالک ہوتا ہے لیکن ان کا پھل لینے کے لیے ان کی مناسب دیکھ بھال اور محنت نہیں کر سکتا یا کسی کے پاس زرعی زمین ہوتی ہے لیکن اس سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے کما حقہ محنت اور رکھوالی نہیں کر سکتا جبکہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں نہ درخت ہوتے ہیں اور نہ زمین کا کوئی ٹکڑا، البتہ اگر اسے درخت یا زمین مہیا ہو جائے تو محنت کر کے ان کا پھل یا زمین سے پیداوار حاصل کر سکتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر شریعت نے فریقین کو مزارعت اور مساقات کی اجازت دے دی کیونکہ اس میں دونوں کی مصلحت اور فائدہ ہے نیز نقصان سے بچاؤ ہے۔
درحقیقت شریعت کے ہر حکم کی بنیاد عدل و انصاف اور مصلحت کے حصول اور نقصان سے بچاؤ پر ہے۔ ایک شخص اپنی زمین دوسرے کو دیتا ہے کہ وہ اس میں کاشت کرے یا زمین اور بیج دونوں کاشت کر نے والے کو دے تا کہ وہ اس زمین میں بیچ ڈالے اور اس کی نگرانی کرے تو آمدن میں سے ایک (غیر مخصوص) حصے کا وہ مستحق ہوگا باقی آمدن مالک کی ہوگی۔ یہ مزارعت کے نام سے معروف ہے۔
مساقات ومزارعت کے جواز پر کئی ایک دلائل ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عامل أهـل خيبر بشطر ما خرج منها من زرع» بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے طےکیا تھا کہ جو پھل اور غلہ ان کی زمینوں اور باغات سے حاصل ہو گا۔ نصف نصف تقسیم کیا جائے گا۔ [صحيح البخاري كتاب الحرث والــمــزارعة بـاب الـمزارعة بالشطر ونحوه حديث: 2328- وصـحـيـح مـسـلـم المساقاة باب المساقاة والمعاملة حديث 1551 واللفظ له]
صحیح مسلم میں ہے: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم ولهم شطر ثمرها» نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کی کھجوروں کے درخت اور زمین یہودیوں کے حوالے کر کے انصف حصہ بٹائی پر معاملہ طے کرایا۔ [صـحـيـح مـسـلـم الـمساقاة باب المساقاة والمعاملة حديث 1551]
اس مضمون کی ایک روایت امام أحمد رحمہ اللہ نے بھی اپنی مسند میں بیان کی ہے۔ [مسند أحمد: 1/ 250]
امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: خیبر کا قصہ مساقات اور مزارعت کے جواز پر دلیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہ معاہدہ قائم رہا منسوخ نہیں ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین ان کا اس پر تعامل رہا۔ اس معاہدے کی بنیاد اجرت پر نہ تھی بلکہ اس کا تعلق مشارکت سے تھا اور مضاربت کے مثل معاملہ تھا۔ (زاد المعاد: 3/ 345)
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس پر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اپنی اپنی خلافت میں عمل کیا اور کسی سے اس کا انکار بھی ثابت نہیں۔ [المغنى والشرح الكبير 5/ 555]
نیز امام موصوف فرماتے ہیں: جو بات حدیث اور اجماع کے مخالف ہو اس پر اعتماد نہیں ہوسکتا۔ کھجور یا دیگر درختوں کے اکثر مالکان ان کو پانی دینے سے قاصر ہوتے ہیں اور نہ کسی کو اجرت پر رکھ سکتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں کہ ان کے پاس درخت نہیں لیکن وہ پھل کے ضرورت مند ہوتے ہیں تو اس مزارعت کی مشروعیت میں دونوں کی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں اور دونوں فریقوں کو فائدہ ہو جا تا ہے۔ [المغنى والشرح الكبير 5/ 555]
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 410